Pages

منگل، 5 اپریل، 2016

مذہب اور سائنس قسط اول

بسم اللہ الرحمن الرحیم
"انی انا اللہ لا الہ الا انا"
سائنس اور مذہب
مومن آؤ تمہیں بھی دکھلاؤں
سیر بت خانے میں خدائی کی
یعنی
سنی حکایت ہستی تو درمیاں سے سنی
نہ ابتدا کی خبر ہے نہ انتہا معلوم
یاد رکھنے کی پہلی بات یہ ہے کہ اصولاً سائنس اور مذہب کا موضوع بحث اور ان کے مسائل و حدود بالکل جدا جدا  ہے۔ سائنس اپنے محدود دائرہ میں کائنا ہستی کی صرف درمیانی داستان سناتی ہے بالذات کائنات کی ابتدا  و انتہا  کے سوالات سے سائنس کو نہ سروکار نہ اس کی رسائی۔ یعنی موجودات عالم کا جو رخ براہ راست یا ہمارے مشاہدہ و تجربہ میں آتاہے سائنس کا کام بس اس کے باہمی روابط و علائق کے قوانین وقواعد کا انضباط ہے۔ بہ الفاظِ دیگر قرآنی اصطلاح میں سائنس کا اصل موضوع بحث و تحقیق صرف عالم شہادت یا بہ اصطلاح فلسفہ عالم مشاہدات و مظاہر (Phenomena) ہے باقی اس عالم شہادت یا مظاہر کے پس پردہ اسکے غیب اول و آخر اور باطن میں کیا حقیقت (Reality) چھبی ہوئی کار فرما ہے۔ یہ انسانی علوم میں فلسفہ خصوصاً ما بعد الطبیعات کا دائرہ بحث رہا ہے۔ اس دائرہ میں ہماری انسانی عقل و منطق کو رہنمائی چار و ناچار ہستی کی درمیانی داستان کے مطالعہ و مشاہدہ ہی سے حاصل کرنا پڑتی ہے۔
            یہ درمیانی مشاہدات و تجربات نوعی طور پر دو مختلف بلکہ متضاد صورتوں کے معلوم ہوتےہیں۔ایک وہ جن کو ہم خود اپنی ذات و ذہن سے بظاہر بالکل باہر ایک خارجی مکان و زمان کی نامحدود دوستوں میں ان گنت گوناغوں رنگ و روپ ہیئیت وصورت اور قد و قامیت کی جاندار و بے جان جسمانی صورتوں میں زمین سے آسمان تک پھیلا ہوا پاتے یہں۔ کچھ ان جسمانی موجودات کا گویا آنکھوں دیکھا خارجی وجود اور بہت کچھ اپنی زندگی کی ہر روز کیا ہر لمحہ کی حاجتوں کی ان سے وابستگی کی بناء پر یہ خارجی دنیا اور اس کی اہمیت ہماری نظروں میں اتنی کھپ جاتی ہے کہ اس کے مقابلہ میں خود اپنی ذات و ذہن کی دااخلی دنیا کی کسی اہمیت و معنویت کی طرف التفات نہ ہونے ہی کے برابر رہتا ہے۔ بس کچھ بچوں جیسا حال کہ ان کی ساری توجہ کھانے پینے، کھیل کود کی چیزوں میں ایسی بٹی رہتی ہے کہ خود اپنے وجود کا شعوری احساس تک نہیں ہوتا، یا جیسے کوئی دلچسپ کھیل تماشا دیکھنے میں عوام و خواص ہر ایک ایسی محویت طاری رہتی ہے کہ بس تماشہ ہی تماشہ کے سوا خود تماشائی یا خود اپنی ذات کے معاملہ میں خود فراموشی کا عالم رہتا ہے۔
            اور اس عالم شہادت کی عام عملی زندگی کے لئے عین تکوینی حکمت و مصلحت بھی یہی تھی کہ خارجی دنیا کو آدمی ویسا ہی جوں کا توں اپنی داخلی ذات سے باہر بذات خود مستقلاً موجود سمجھتا یا جانتا رہے، جیسا کہ حواسی مشاہدہ و تجربہ میں دن رات محسوس ہوتی رہتی ہے۔ مغالطہ فقط ایک ہی ہوا، وہ بھی صاف سیدھی معمولی عقل و فہم  (Commonsense) کو نہیں، بلکہ نام نہاد غیر معمولی فلسفیانہ اور سائنسی فکر و تحقیق والوں کو۔ ان ہی میں ایک جماعت نے دھوکا یہ کھایا کہ ہماری ذات ذہن سے باہر ہمارے ہی جیسے باشعور انسانوں کے پہلو بہ پہلو ان سے بہت زیادہ کثرت تعداد میں اور پہاڑوں، سمندروں جیسی بلکہ ان سے بھی کہیں بڑھ چڑھ کر عظیم و مہیب اجرام سماوی کی جسمانیتوں کی جو ایک اتھاہ کائنات پھیلی ہوئی ہے، ہو نہ ہو نا ہی کنکر پتھر جیسے بے ذہن و زندگی والے جمادی جسموں ہی کے کسی نہ کسی حصے نے اربوں کھربوں سال کے دوران اپنے ہی اندر کے کسی نہ کسی الٹ پھیر سے انسانی ذہن ابھر آیا۔ پھر ان بے شعور و بے ذہن اجسام ہی کو مادہ کا ایک کلی یا تجریدی نام دے دیا۔ اس مادہ کی کسی ابتدائی ہیولائی (برنگ ارسطو) یا ذراتی (برنگ دیمقراطیس) صورت نے بلا کسی بیرونی عامل کی مداخلت کے آپ ہی آپ ساری سماوی وارضی جمادی دنیا کی طرح حیوانی و انسانی موجودات کو بھی کسی نہ کسی طرح اپنے پیٹ سے جنم دے دیا۔ ایسی بے ذہن کیا سرے سے بے زندگی ٹھوس ٹھس مادنہ سے ساری مخلوقات کی خود بخود تخلیق کے نظریہ کا نام مادیت ہے۔ کندۂ نا تراشیدہ مادہ کا یہ فلسفہ خود قدیم و جدید فلسفہ کی سرزمین میں تو زیادہ پنپ نہ پایا۔ البتہ جدید سائنس کی ابتائی دو تین صدیوں میں اس کی فتح کا نقارہ اس زور سے پیٹا گیا کہ اس کے برعکس عین اسی دور کے کہنا چاہئے پورے جدید فلسفہ کی تصویریتی تاریخ طوطی کی آواز بن کر رہ گئی ۔
            بالآخر انیسویں صدی کے اواخر سے خود سائنس نے ایسا پلٹا کھایا کہ بڑے سے بڑے رجان سائن کو عین سائنس تحقیقات و اکتشافات کی راہوں سے بالکل "برعکس نہند نام زنگی کافور" کا اکتشاف ہو کر رہا اور برکلے جیسے قطعی منکر مادہ فلسفی تک کی بولیاں بولی جانے لگیں۔
اتنا بہر نوع مسلم ہی ہوکر رہا کہ ہمارے ذہن سے باہر اگر کوئی نام نہاد مادی دنیا پائی بھی جاتی ہے، تو وہ الیکڑان وغیرہ برقی ذرات کی صرف مجنونانہ حرکت ہے۔ پھر خود برق یا برقی کے ذرات کی بجائے خود حقیقت نامعلوم ہی نامعلوم ہے۔ باقی وہی ہماری زمین سے آسمان تک کے حواسی ادراکات والی دنیا جس کو ہم تمام تر ذہن سے باہر محسوس کرتے رہتے ہیں، بلکہ خود اپنا بے شمار اندرونی بیروی اعضائ و جوارح والا چلتا پھرتا جسم تک ہمارے اپنے ذہنوں سے باہر قطعاً نابو ہی نابود اور بالکلیہ ذہن ہی ذہن کی تعمیر و تخلیق ہوتا ہے اور ذہن سے خارج ان کا ان کے مماچل یا ملتی جلتی چیزوں کا بھی دور دور کوئی وجود نہیں ہوتا۔(جاری ہے)
مصنف: عبدلباری ندوی

0 تبصرے:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔