Pages

بدھ، 2 مارچ، 2016

ایک عورت کے لیے متعدد خاوند ہونے کی ممانعت

 حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی رحمہ اللہ تعالیٰ کا کلام معرفت الیتام
حق جل شانہ کا ارشاد ہے، نساء کم حرث لکم۔ آیت۔ یعنی تمہاری عورتیں تمہارے کھیت ہیں اس سے صاف روش ہے کہ نکاح سے مقصود اولاد ہے کیونکہ کھیت سے مطلوب پیدوار ہوتی ہے اور ظاہر ہے کہ اس کھیت کی پیدوار یہی اولاد ہے گہیوں چنا وغیرہ نہیں اس سے یہ بھی معلوم ہوگیا کہ شیعوں کے نزدیک جو سارے جہان کے خلاف اپنی بی بی سے اغلام درست ہے کہ وہ کلام اللہ کے بھی مخالف ہے مگر اغلام سے تولد اولاد متصور نہیں مگر ہاں شاید شیعوں میں یہ کرامت ہو کہ نطفہ ادھر سے ادھر چلا جاتا ہو باقی رہا جملہ، فاتوا حرثکم انی شئتم۔ آیت۔ جس کا یہ مطلب ہے کہ اپنی زمین میں بیچ ڈالنے کے لیے شرق کی طرف سے جاؤ یا غرب کی طرف سے بہر حال تم کو اختیار ہے او اس سے ہر کوئی یہی سمجھتا ہے کہ مقصود اصلی بونا ہے وہ دونوں طرف سے جانے میں برابر حاصل ہے اور پیدوار دونوں میں ایک طرح سے ہوگی ایسے ہی اس جملہ سے ہر عاقل یہی سمجھے گا کہ اپنی بییبوں سے الٹے سیدھے جس طرح چاہو صحبت کرو تولد اولاد میں دونوں صورتیں برابر ہیں یہ نہیں کہ سیدھی صحبت کیجئے تو بچا اچھا ہوا اور الٹی کیجئے تو احول (بھینگا) پیدا ہوجیسا کہ یہودی کہا کرتے تھے چنانچہ اسی وہم فاسد کے ازالہ اور دفع کے لیے یہ ارشاد ہوا فاتواحرثکم انی شئتم۔ آیت۔ مگر علماء شیعہ کی خوش فہمی دیکھئے کہ بات کیا تھی اور کیا مطلب سمجھ گئے مگر وہ بھی کیا کریں اگر متعہ اور اغلام نہ ہوتا تو خواص تو متنفر تھے ہی عوام کالانعام بھی اس مذہب کو پسند نہ کرتے۔

 علاوہ بریں ولد صالح کا باقیات صالحات میں سے ہونا بھی اولاد کے مقصود ہونے پر شاید ہے کیونکہ اگر شہوت رانی ہی مقصود اور اولاد مقصود نہ ہوتی تو ان کے حساب سے اولاد کا ہونا اور نہ ہونا برابر ہوتا اگر صالح ہوتی تو کیا اور فاسق ہوئی تو کیا اور علی ہذا القیاس سقی ماء غیر یعنی عورت حاملہ من الغیر سے جماع حرام نہ ہوتا چنانچہ ظاہر ہے بہرحال مقصود اصلی نکاھ سے اولاد ہے شہوت رانی مقصود اصلی نہیں جیسے اکل غذاء سے بدل مایتحلل مقصود ہے اور بھوک مثل چپراسی سرکاری اس بیگار کے لیے متقاضی ہے ایسے ہی عورتوں سے اولاد مطلوب ہے اور شہوت جماع تقاضا جماع کے لیے ساتھ لگا دی گئی مگر جب اولاد مقصود ٹھہری چنانچہ آیت مسطور اس پر شاہد ہے اور نیز عقل سلیم اس پر گواہ تو پھر ایک عورت کا زمانہ واحدہ میں دو یا زیادہ مردوں سے نکاح کی اجازت قرین عقل نہ ہوگی اس لیے کہ زمین کی پیدوار تو سب ایک سی ہوتی ہے اور اس کے سب دانے باہم متشابہ ہوتے ہیں خورش میں سب یکساں کسی کو کسی پر کچھ فوقیت نہیں اس لیے شرکت میں کوئی خرابی پیش نہیں آتی علی السویہ تقسیم ہوسکتی ہے پر اولاد میں اگر اشتراک تجویز کیا جائے تو ایک نزاع عظیم برپا ہوجائے اس یے کہ اول تو یہی کچھ ضرور نہیں کہ ایک سے زیادہ بچہ پیدا ہو اور دو تین پیدا بھی ہوئے تو کچھ ضرور نہیں کہ سب لڑکے ہی ہوں یاسب لڑکیاں ہی ہوں اور پھر سب ایک ہی نمبر کے عاقل وفاضل ہوں بلکہ عادت اللہ یوں ہی جاری ہے کہ جیسے پانچوں انگلیاں یکساں نہیں ہوتیں ایسی ہی تمام اولاد یکساں نہیں ہوتی تو پھر تقسیم اولاد کی کیا صورت ہوگی۔ خاص کر جب کہ بچہ ایک ہو اور عورت کے خاوند متعدد ہوں یا خاوند کا عدد تو زوج ہو اور اولاد کا عدد طاق ہو تو اور بھی دشواری ہوگی ہاں اگر اولاد کاٹنے پھاٹنے کے قابل ہوتی تو مثل غلہ مشترک پاجامہ مشترک کاٹ پھاٹ کربرابر کرلیتے اور نزاع دفع کرلیتے بامثل غلام عورت کاہر وقت ایک حال رہتا اور یہ تفاوت احوال اور اختلاف کیفیا مزاجی نہ ہوتا تو ہفتہ وار یا ماہوار یاسال وار ایک خاوند کے پاس رہا کرتی مگر اول تو ہر دم اور ہرحال میں رحم زن نطفہ کو قبول نہیں کرتا دوسرے یہ کہ اختلاف احوال زن بسااوقات اختلاف زکورت وانوثت اور عقلی اور بے عقلی کاسبب بن جاتا ہے چنانچہ جو لوگ دقائق طبیہ اور حقائق موجبات اختلاف امزجہ اولاد سے واقف ہیں وہ خوب جانتے ہیں کہ وقت جماع جو کیفیت والدین اور خصوصا والدہ پر غالب ہوتی ہے وہی کیفیت اولاد کے حق میں خلق اور طبیعت بن جاتی ہے والدین کی کیفیت مزاجی کو اولاد کے اخلاق اور عقل میں داخل تام ہے الغرض بوجہ تفاوت احوال معلومہ یہ ممکن نہیں کہ غلام کی طرح عورت نوبت بنوبت ہر خاوند کے پاس رہا کرے کیونکہ خدمت غلام کوئی امر معین نہیں جو اس کی مقدار تعین نوبت میں ملحوظ رہے اس لیے وہاں وہ زمانہ جس میں خدمت معتد بہ تمام شرکاء کے نزدیک ادا کرسکے معین ہوسکے گا اور عورت میں خدمت فراش یعنی جماع کی مقدار نوبت کی تعین نہایت دشوار ہے علاوہ ازیں مرد میں ہر لحظہ حاجت الی الجماع کا احتمال ہے اور یہ حاجت بدون عورت کے رفع ہونا محال ہے بخلاف غلام کے اگر غلام موجود نہ ہو تو وہ اپنا کاروبار اپنے ہاتھ سے بھی انجام دے سکتا ہے اور جماع میں یہ متصور نہیں تو ان وجوہ سے زوجہ میں شرکت خلاف مصلحت ہوئی ملخص ازاجوبہ اربعین از ص ١٨ ج ٢ تا ص ٢٢ ج ٢)۔ الغرض شریعت نے ان فتنوں کا دروازہ بند کرنے کے لیے ایک عورت کے لیے متعدد مردوں سے نکاح کو ممنوع اور حرام قرار دیا۔

0 تبصرے:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔