Pages

پیر، 29 فروری، 2016

مسئلہ تعدد ازدواج

 مسئلہ تعدد ازدواج

 شریعت اسلامیہ غایت درجہ معتدل اور متوسط ہے افراط اور تفریط کے درمیان میں ہے نہ تو عیسائیوں کے راہبوں اور ہندوؤں کے جوگیوں اور گسایوں کی طرح ملنگ بننے کی اجازت دیتی ہے اور نہ صرف ایک عورت ہی پر قناعت کرنے کو لازم گردانتی ہے بلکہ حسب ضرورت ومصلحت ایک سے چار تک اجازت دیتی ہے۔ چنانچہ پادری لوگ بھی نظر عمیق کے بعد اسی کا فتوی دیتے ہیں جیسا کہ کتاب مسمی بہ اصلاح سہو مطبوعہ امریکن مشن پریس ١٨٧١ ء میں لکھتے ہیں کہ تعدد ازددواج بنی اسرائیل میں تھا اور خدا نے اس کو منع نہیں کیا بلکہ برکت کا وعدہ کیا اور عارئین لوتھر نے فلپ کو دو جروں کی اجازت دی تھی منقول از تفسیرحقانی ص ١٦٦ ج ٣۔ تاریخ عالم کے مسلمات میں سے ہے کہ اسلام سے پہلے تمام دنیا میں یہ رواج تھا کہ ایک شخص کئی کئی عورتوں کو اپنی زوجیت میں رکھتا تھا اور یہ دستور تمام دنیا میں رائج تھا حتی کہ حضرات انبیاء بھی اس دستور سے مستثنی نہ تھے۔ حضرت ابراہیم کی دوبیبیاں تھیں حضرت سارہ اور حضرت ہاجرہ حضرت اسحاق کے بھی متعدد بیویاں تھیں حضرت موسیٰ کے بھی کئی بیویاں تھیں اور سلیمان (علیہ السلام) کے بیسوں بیویاں تھیں اور حضرت داوؤد (علیہ السلام) کے سو بیویاں تھیں اور توریت وانجیل ودیگر صحف انبیاء میں حضرات انبیاء کی متعدد ازواج کا ذکر ہے اور کہیں اس کی ممانعت کا ادنی اشارہ بھی نہیں پایا جاتا صرف حضرت یحیٰی اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) ایسے نبی گزرے ہیں کہ جنہوں نے بالکل شادی نہیں کی ان کے فعل کو اگر استدلال میں پیش کیا جائے تو ایک شادی بھی ممنوع ہوجائے گی احادیث میں ہے کہ عیسیٰ (علیہ السلام) قیامت کے قریب آسمان سے نازل ہوں گے اور نزول کے بعد شادی فرمائیں گے اور ان کے اولاد بھی ہوگی۔ غرض یہ کہ علماء یہود اور علماء نصاری کو مذہبی حیثیت سے تعدد ازواج پر اعتراض کا کوئی حق نہیں صرف ایک ہی بیوی رکھنے کا حکم کسی مذہب اور ملت میں نہیں نہ ہندوں کے شاستروں میں نہ توریت میں اور نہ انجیل میں صرف یورپ کارواج ہے نہ معلوم کس بنا پر یہ رواج رائج ہوا اور جب سے یورپ میں یہ رواج چلا اس وقت مغربی قوموں میں زناکاری کی اس درجہ کثرت ہوئی کہ پچاس فیصد آبادی غیر ثابت النسب ہے اور جن قوموں نے تعدد ازدواج کو برا سمجھا ہے وہی قومیں اکثر زناکاری میں مبتلا ہیں۔ اسلام سے بیشتر دنیا کے ہر ملک اور ہر خطہ میں کثرت ازدواج کی رسم خوب زور شور سے رائج تھی اور بعض اوقات ایک ایک شخص سو عمر تک عورتوں سے شادیاں کرلیتا تھا اسلام آیا اور اس نے اصل تعداد کو جائز قرار دیا مگر اس کی ایک حد مقرر کردی اسلام نے تعدد ازدواج کو واجب اور لازم قرار نہیں دیا بلکہ بشرط عدل وانصاف اس کی اجازت دی کہ تم کو چار بیویوں کی حد تک نکاح کی اجازت ہے اور اس چار کی حد سے تجاوز کی اجازت نہیں اس لیے کہ نکاح سے مقصود عفت اور تحصین فرج ہے چار عورتوں میں جب ہر تین شب کے بعد ایک عورت کی طرف رجوع کرے گا تو اس کے حقوق زوجیت پر کوئی اثر نہیں پڑے گا شریعت اسلامیہ نے غایت درجہ اعتدال اور توسط کو ملحوظ رکھا کہ نہ تو جاہلیت کی طرح غیر محدود کثرت ازدواج کی اجازت دی کہ جس سے شہوت رانی کادروازہ کھل جائے اور نہ اتنی تنگی کی کہ ایک عورت سے زائد کی اجازت ہی نہ دی جائے بلکہ بین بین حالت کو برقرار رکھا کہ چار تک اجازت دی تاکہ نکاح کی غرض وغایت یعنی عفت اور حفاظت نظر اور تحصین فرج اور تناسل اور اولاد بسہولت حاصل ہوسکے اور زنا سے بالکلیہ محفوظ ہوجائے اس لیے کہ بعض قوی اور توانا اور تندرست اور فارغ البال اور خوش حال لوگوں کو ایک بیوی سے زیادہ کی ضرورت ہوتی ہے اور بوجہ قوت اور توانائی اور اوپر سے فارغ البال اور خوش حالی کی وجہ سے چار بیویوں کے بلاتکلف حقوق زوجیت ادا کرنے پر قادر ہوتے ہیں۔
 (بلکہ) ایسے قوی اور تواناجن کے پاس لاکھوں کی دولت بھی موجود ہے اگر وہ اپنے خاندان کی چار غریب عورتوں سے اس لیے نکاح کریں کہ ان کی تنگ دستی مبدل، بفراخی ہوجائے اور غربت کے گھرانہ سے نکل کر ایک راحت اور دولت کے گھر میں داخل ہوں اور اللہ کی نمعت کا شکر کریں تو امید ہے کہ ایسا نکاح اسلامی نقطہ نظر سے بلاشتبہ عبادت اور عین عبادت ہوگا اور قومی نقطہ نظر سے اعلی ترین قومی ہمدردی ہوگی جس دولت مند اور زمیندار اور سرمایہ دار کے خزانہ سے ہر مہینہ دس ہزار مزدوروں کو تنخواہیں ملتی ہوں اور دس ہزار خاندان اس کی اعانت اور امداد سے پرورش پاتے ہوں تو اگر اس کے خاندان کی چار عورتیں بھی اس کی حرم سرائے میں داخل ہوجائیں اور عیش وعشرت کے ساتھ ان کی عزت وناموس بھی محفوظ ہوجائے تو عقلا وشرعا اس میں کوئی خرابی نظر نہیں آتی بلکہ اگر کوئی بادشاہ یا صدر مملکت یا وزیر سلطنت یا کوئی صاحب ثروت ودولت بذریعہ اخبار یہ اعلان کرے کہ میں چار عورتوں سے نکاح کرنا چاہتا ہوں اور ہر عورت کو ایک ایک لاکھ مہردوں گا اور ایک ایک بنگلہ کاہر ایک کو مالک بنادوں گا جو عورت مجھ سے نکاح چاہے وہ میرے پاس درخواست بھیج دے۔
 (تو سب سے پہلے)۔ انہی بیگمات کی درخواستیں پہنچیں گی جو آج تعدد ازدواج کے مسئلہ پر شور برپا کررہی ہیں یہی بیگمات سب سے پہلے اپنے آپ کو اور اپنی بیٹیوں اور بھتیجیوں اور بھانجیوں کو لے کر امراء اور وزارء کے بنگلوں پر خود حاضر ہوجائیں گی اور اگر کوئی امیر اور وزیر ان کے قبول کرنے میں کچھ تامل کرے گا تو یہی بے گمات دل آویز طریقہ سے ان کو تعدد ازدواج کے فوائد اور منافع سمجھائیں گی۔
 ٢۔ نیز بسااوقات ایک عورت امراض کی وجہ سے یا حمل اور تولد النسل کی تکلیف میں مبتلا ہونے کی وجہ سے اس قابل نہیں رہتی کہ مرد اس سے منتفع ہوسکے تو ایسی صورت میں مرد کے زنا سے محفوظ رہنے کی عقلا اس سے بہتر کوئی صورت نہیں کہ اس کو دوسرے نکاح کی اجازت دی جائے۔
 حکایت۔ ایک بزرگ کی بیوی نابینا ہوگئی تو انہوں نے دوسرا نکاح کیا تاکہ یہ دوسری بیوی پہلی بیوی نابینا کی خدمت کرسکے اہل عقل فتوی دیں کہ اگر کسی کی پہلی بیوی معذور ہوجائے اور دوسرا نکاح اس لیے کرے تاکہ دوسری بیوی پہلی بیوی کی خدمت کرسکے اور اس کے بچوں کی تربیت کرسکے کیا یہ دوسرا نکاح عین عبادت اور عین مروت اور عین انسانیت نہ ہوگا۔
 ٣۔ نیز بسااوقات عورت امراض کی وجہ سے یا عقیم (بانجھ) ہونے کی وجہ سے توالدالنسل کے قابل نہیں رہتی اور مرد کو بقاء نسل کی طرف فطری رغبت ہے ایسی صورت میں عورت کو بے وجہ طلاق دے کر علیحدہ کرنا یا اس پر کوئی الزام لگا کر طلا دے دینا جیسا کہ دن رات یورپ میں ہوتا رہتا ہے یہ صورت بہتر ہے یا یہ صورت بہتر ہے کہ اس کی زوجیت اور اس کے حقوق کو محفوظ رکھ کر دوسرے نکاح کی اجازت دے دیں بتلاؤ کون سی صورت بہتر ہے اگر کسی قوم کو اپنی تعداد بڑھانی منظور ہو یا عام طور پر بنی نوع کی افزائش نسل مدنظر ہو تو سب سے بہتر یہی تدبیر ہوسکتی ہے کہ ایک مرد کئی شادیاں کرے تاکہ بہت سی اولاد پیدا ہو۔
 ٤۔ نیز عورتوں کی تعداد قدرتا اور عادۃ مردوں سے زیادہ ہے مرد بہ نسبت عورتوں کے پیدا کم ہوتے ہیں اور مرتے زیادہ ہیں لاکھوں مرد لڑائیوں میں مارے جاتے ہیں اور ہزاروں مرد جہازوں میں ڈوب جاتے ہیں اور ہزاروں کانوں میں دب کر اور تعمیرات میں بلندیوں سے گر کر مرجاتے ہیں اور عورتیں پیدا زیادہ ہوتی ہیں اور مرتی کم ہیں پس اگر ایک مردکو کئی شادیوں کی اجازت نہ دی جائے تو یہ فاضل عورتیں بالکل معطل اور بے کار رہیں کون ان کی معاش کا کفیل اور ذمہ دار بنے اور کس طرح عورتیں اپنے کو زنا سے محفوظ رکھیں پس تعدد ازدواج کا حکم بے بس کس عورتوں کاسہارا ہے اور ان کی عصمت اور ناموس کی حفاظت کا واحد ذریعہ ہے اور ان کی جان اور آبرو کانگہبان اور پاسبان ہے عورتوں پر اسلام کے اس احسان کا شکر واجب ہے کہ تم کوتکلیف سے بچایا اور راحت پہنچائی اور ٹھکانا دیا اور لوگوں کی تہمت اور بدگمانی سے تم کو محفوظ کردیا دنیا میں جب کبھی عظیم الشان لڑائیاں پیش آتی ہیں تو مرد ہی زیادہ مارے جاتے ہیں اور قوم میں بے کس عورتوں کی تعداد بڑھ جاتی ہے تو اس وقت ہمدرداں قوم کی نگاہیں اس اسلامی اصول کی طرف اٹھ جاتی ہیں ابھی تیس سال قبل کی بات ہے کہ جنگ عظیم کے بعد جرمنی اور دوسرے یورپی ممالک جن کے مذہب میں تعداد ازددواج جائز نہیں عورتوں کی بے کسی کو دیکھ کر اندر ہی اندر تعداد ازدواج کے جواز کا فتوی تیار کررہے تھے۔ جو لوگ تعدد ازدواج کو برا سمجھتے ہیں ہم ان سے یہ سوال کرتے ہیں کہ جب ملک میں عورتیں لاکھوں کی تعداد میں مردوں سے زیادہ ہوں تو ان کی فطری اور طبعی جذبات اور ان کی معاشی ضروریات کی تکمیل کے لیے آپ کے پاس کیا حل ہے اور آپ نے ان بے کس عورتوں کی مصیبت دور کرنے کے لیے کیا قانون بنایا ہے افسوس اور صد افسوس کہ اہل مغرب اسلام کے اس جائز تعدد پر عیش پسندی کا الزام لگائیں اور غیر محدود ناجائز تعلقات اور بلا نکاح کے لاتعداد آشنائی کوتہذیب اور تمدن سمجھیں زنا جو کہ تمام انبیاء اور مرسلین کی شریعتوں میں حرام اور تمام حکماء کی حکمتوں میں قبیح رہا مغرب کے مدعیان تہذیب کو اس کا قبح نظر نہیں آتا اور تعدد ازدواج کہ جو تمام انبیاء ومرسلین اور حکماء اور عقلاء کے نزدیک جائز اور مستحسن رہا وہ ان کو قبیح نظر آتا ہے ان مہذب قوموں کے نزدیک تعدد ازدواج تو جرم ہے اور زنا اور بدکاری جرم نہیں۔

 ٥۔ عورتیں۔ مرد سے عقل میں بھی نصف ہیں اور دین میں بھی نصف ہیں جس کا حاصل یہ نکلا کہ ایک عورت ایک مرد کاربع یعنی چوتھائی ہے اور ظاہر ہے کہ چار ربع مل کر ایک بنتے ہیں معلوم ہوا کہ چار عورتیں ایک مرد کے برابر ہیں اس لیے شریعت نے ایک مرد کو چار عورتوں سے نکاح کی اجازت دی۔(مأخوذ تفسیر معارف القرآن لادریس کاندھلوی سورہ النساء)

0 تبصرے:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔