Pages

ہفتہ، 9 اپریل، 2016

قرآن اللہ کی کتاب ہے

بسم اللہ الرحمن الرحیم
قرآنِ مجید اللہ کی کتاب ہے، یہ انسانیت کے لئے ابدی پیغام اور زندہ دستور العمل ہے، یہ بیک وقت دماغ کو بھی مطمئن کرتی ہے اور بربط دل کو بھی چھیڑتی ہے، یہ ایک انقلاب انگیز کتاب ہے، جیسے سورج کی تمازت میں کبھی کمی نہیں آسکتی اور سمندر کی وسعتوں کو کم نہیں کیا جاسکتا، اسی طرح اس کتاب کی اثر انگریزی، اس کی تاثیر، دلوں کو زیر و زبر کردینے کی صلاحیت اور فکر و نظر پر چھا جانے کی طاقت میں کبھی کوئی کمی نہیں ہوسکتی، یہ رواں دواں زندگی میں انسان کی رہنمائی کی پوری صلاحیت رکھتی ہے، اس لئے اس کی آب و تاب میں کوئی فرق نہیں آسکتا، خود اللہ تعالیٰ نے اس کی حفاظت کا وعدہ فرمایا ہے، جو اس بات کا اعلان ہے کہ قرآن مجید قیامت تک اپنی تمام خصوصیات کے ساتھ محفوظ رہے گا۔
            دنیا میں جو دوسری مذہبی کتابیں ہیں، انسانی زندگی سے ان کا رشتہ ٹوٹ چکا ہے، آج کوئی ہندو،بدھسٹ یا عیسائی اپنی تجارت، کاروبار، نظامِ حکومت، طریقۂ عدل و انصاف، ازدواجی زندگی، خاندانی تعلقات، مختلف قوموں کے باہمی روابط اور اس طرح کے دوسرے مسائل میں اپنی مذہبی کتابوں سے رجوع نہیں کرتا، نہ وہ اپنے مذہبی علماء سے احکام و مسائل معلوم کرتے ہیں، زیادہ سے زیادہ بعض قومیں نحس و برکت وغیرہ کے سلسلہ میں جو توہمات ہیں، ان کے لئے مذہبی شخصیتوں سے رجوع ہوتے ہیں اور کچھ عباداتی رسوم کو اپنی عبادت گاہوں میں انجام دیتے ہیں، عام لوگ ان کتابوں کو نہ پڑھتے ہیں، نہ سمجھتے ہیں، سمجھاجاتا ہے کہ کچھ مخصوص لوگ ہی اس کو پڑھنے اور سمجھنے کے اہل ہیں، اس لئے ان قوموں کی زندگی میں مذہب کا ہمہ گیر تصور نہیں پایا جاتا اور وہ زندگی کے عام مسائل میں اپنی خواہش کے متبع ہیں،ـــــــ نہ کوئی حلال، نہ حرام، نہ جائز  نہ ناجائز اور نہ مکروہ، نہ مستحب۔
            لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ اُمتِ مسلمہ اپنی بہت سی کمزوریوں اور کوتاہ عملیوں کے باوجود آج بھی اپنے مذہب سے مربوط ہے، خود ہمارے ملک ہندوستان میں بیسیوں دار الافتاء ہیں، جن کے پاس روزانہ سینکڑوں کی تعداد میں فتاویٰ کی ڈاک آتی ہے اور لوگ زندگی کے نوع بہ نوع مسائل کے بارے میں حکمِ شرعی دریافت کرتے ہیں، کسی جبر و دباؤ کے بغیر اپنے سینکڑوں نزاعات کو شرعی پنچایت اور دار القضاء میں لے جاتے ہیں اور مسلمان، چاہے زندگی کے کسی بھی شعبہ میں ہو، اس کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ شریعت کے دائرہ میں رہتے ہوئے زندگی گذارے، اسی چیز نے اسے الحاد و بد دینی کے اس طوفان میں بھی دین سے ربوط رکھا ہے اور وہ اس لادینی ثقافت کے آگے سر تسلیم خم کرنے کو تیار نہیں ہے، جس کے سامنے آج تمام قومیں اپنی شکست تسلیم کرچکی ہیں، یہ سب قرآن مجید کا فیض ہے، یہ وہ چیز ہے جس نے حق اور سچائی کے دشمنوں کو قرآ ن مجید کے خلاف کھڑا کردیا ہے، لیکن یہ بات کہ قرآن مجید کا کچھ حصہ حذف کردیا جائے، کوئی نئی بات نہیں ہے، یہ مطالبہ تو خود نزولِ قرآن کے زمانہ میں بھی ہوا۔(سورہ یونس :15) لیکن جیسے ان معاندین کی خواہش ناکام و نامراد ہوئی، آج جو لوگ قرآن مجید کے خلاف زبان کھول کر سورج پر تھوکنے کی کوشش کر رہے ہیں، ان کی اس بے جا خواہش اور مطالبہ کا بھی وہی حشر ہوگا۔

ہندوستان میں حقیقت پسند ہندو علماء نے ہمیشہ قرآن مجید کو عقیدت و احترام کی نظر سے دیکھا ہے، گاندی جی اور ونوبا بھاوے جی مذہبی شخصیت کے حامل تھے، گاندھی جی قرآن سے بہت متاثر تھے اور اس کی تلاوت بھی کیا کرتے تھے، یہی حال ونوبا بھاوے جی  کا تھا، انہوں نے تو قرآن کی منتخب آیات کا ترجمہ اور مختصر تشریح بھی "روح القرآن" کے نام سے مرتب کی ہے، ہندوستان میں طباعت و اشاعت کی موجودہ سہولتوں اور پریس کی کثرت کے دور سے پہلے قرآن مجید کی طباعت میں سب سے نمایاں کام "منشی نو لکشور لکھنو" کا ہے، وہ صحت کے مکمل اہتمام کے ساتھ قرآن مجید طبع کیا کرتے تھے اور طباعت کے لئے سنگی تختیاں تیار کرتے تھے، نیز انہیں احتراماً دوسرئ زئر طباعت کتابوں اور ان کی تختیوں سے اوپر رکھا کرتے تھے۔(مأخوذ 24 آیتیں از مولانا خالد سیف اللہ رحمانی)
مکمل تحریر >>

منگل، 5 اپریل، 2016

مذہب اور سائنس قسط اول

بسم اللہ الرحمن الرحیم
"انی انا اللہ لا الہ الا انا"
سائنس اور مذہب
مومن آؤ تمہیں بھی دکھلاؤں
سیر بت خانے میں خدائی کی
یعنی
سنی حکایت ہستی تو درمیاں سے سنی
نہ ابتدا کی خبر ہے نہ انتہا معلوم
یاد رکھنے کی پہلی بات یہ ہے کہ اصولاً سائنس اور مذہب کا موضوع بحث اور ان کے مسائل و حدود بالکل جدا جدا  ہے۔ سائنس اپنے محدود دائرہ میں کائنا ہستی کی صرف درمیانی داستان سناتی ہے بالذات کائنات کی ابتدا  و انتہا  کے سوالات سے سائنس کو نہ سروکار نہ اس کی رسائی۔ یعنی موجودات عالم کا جو رخ براہ راست یا ہمارے مشاہدہ و تجربہ میں آتاہے سائنس کا کام بس اس کے باہمی روابط و علائق کے قوانین وقواعد کا انضباط ہے۔ بہ الفاظِ دیگر قرآنی اصطلاح میں سائنس کا اصل موضوع بحث و تحقیق صرف عالم شہادت یا بہ اصطلاح فلسفہ عالم مشاہدات و مظاہر (Phenomena) ہے باقی اس عالم شہادت یا مظاہر کے پس پردہ اسکے غیب اول و آخر اور باطن میں کیا حقیقت (Reality) چھبی ہوئی کار فرما ہے۔ یہ انسانی علوم میں فلسفہ خصوصاً ما بعد الطبیعات کا دائرہ بحث رہا ہے۔ اس دائرہ میں ہماری انسانی عقل و منطق کو رہنمائی چار و ناچار ہستی کی درمیانی داستان کے مطالعہ و مشاہدہ ہی سے حاصل کرنا پڑتی ہے۔
            یہ درمیانی مشاہدات و تجربات نوعی طور پر دو مختلف بلکہ متضاد صورتوں کے معلوم ہوتےہیں۔ایک وہ جن کو ہم خود اپنی ذات و ذہن سے بظاہر بالکل باہر ایک خارجی مکان و زمان کی نامحدود دوستوں میں ان گنت گوناغوں رنگ و روپ ہیئیت وصورت اور قد و قامیت کی جاندار و بے جان جسمانی صورتوں میں زمین سے آسمان تک پھیلا ہوا پاتے یہں۔ کچھ ان جسمانی موجودات کا گویا آنکھوں دیکھا خارجی وجود اور بہت کچھ اپنی زندگی کی ہر روز کیا ہر لمحہ کی حاجتوں کی ان سے وابستگی کی بناء پر یہ خارجی دنیا اور اس کی اہمیت ہماری نظروں میں اتنی کھپ جاتی ہے کہ اس کے مقابلہ میں خود اپنی ذات و ذہن کی دااخلی دنیا کی کسی اہمیت و معنویت کی طرف التفات نہ ہونے ہی کے برابر رہتا ہے۔ بس کچھ بچوں جیسا حال کہ ان کی ساری توجہ کھانے پینے، کھیل کود کی چیزوں میں ایسی بٹی رہتی ہے کہ خود اپنے وجود کا شعوری احساس تک نہیں ہوتا، یا جیسے کوئی دلچسپ کھیل تماشا دیکھنے میں عوام و خواص ہر ایک ایسی محویت طاری رہتی ہے کہ بس تماشہ ہی تماشہ کے سوا خود تماشائی یا خود اپنی ذات کے معاملہ میں خود فراموشی کا عالم رہتا ہے۔
            اور اس عالم شہادت کی عام عملی زندگی کے لئے عین تکوینی حکمت و مصلحت بھی یہی تھی کہ خارجی دنیا کو آدمی ویسا ہی جوں کا توں اپنی داخلی ذات سے باہر بذات خود مستقلاً موجود سمجھتا یا جانتا رہے، جیسا کہ حواسی مشاہدہ و تجربہ میں دن رات محسوس ہوتی رہتی ہے۔ مغالطہ فقط ایک ہی ہوا، وہ بھی صاف سیدھی معمولی عقل و فہم  (Commonsense) کو نہیں، بلکہ نام نہاد غیر معمولی فلسفیانہ اور سائنسی فکر و تحقیق والوں کو۔ ان ہی میں ایک جماعت نے دھوکا یہ کھایا کہ ہماری ذات ذہن سے باہر ہمارے ہی جیسے باشعور انسانوں کے پہلو بہ پہلو ان سے بہت زیادہ کثرت تعداد میں اور پہاڑوں، سمندروں جیسی بلکہ ان سے بھی کہیں بڑھ چڑھ کر عظیم و مہیب اجرام سماوی کی جسمانیتوں کی جو ایک اتھاہ کائنات پھیلی ہوئی ہے، ہو نہ ہو نا ہی کنکر پتھر جیسے بے ذہن و زندگی والے جمادی جسموں ہی کے کسی نہ کسی حصے نے اربوں کھربوں سال کے دوران اپنے ہی اندر کے کسی نہ کسی الٹ پھیر سے انسانی ذہن ابھر آیا۔ پھر ان بے شعور و بے ذہن اجسام ہی کو مادہ کا ایک کلی یا تجریدی نام دے دیا۔ اس مادہ کی کسی ابتدائی ہیولائی (برنگ ارسطو) یا ذراتی (برنگ دیمقراطیس) صورت نے بلا کسی بیرونی عامل کی مداخلت کے آپ ہی آپ ساری سماوی وارضی جمادی دنیا کی طرح حیوانی و انسانی موجودات کو بھی کسی نہ کسی طرح اپنے پیٹ سے جنم دے دیا۔ ایسی بے ذہن کیا سرے سے بے زندگی ٹھوس ٹھس مادنہ سے ساری مخلوقات کی خود بخود تخلیق کے نظریہ کا نام مادیت ہے۔ کندۂ نا تراشیدہ مادہ کا یہ فلسفہ خود قدیم و جدید فلسفہ کی سرزمین میں تو زیادہ پنپ نہ پایا۔ البتہ جدید سائنس کی ابتائی دو تین صدیوں میں اس کی فتح کا نقارہ اس زور سے پیٹا گیا کہ اس کے برعکس عین اسی دور کے کہنا چاہئے پورے جدید فلسفہ کی تصویریتی تاریخ طوطی کی آواز بن کر رہ گئی ۔
            بالآخر انیسویں صدی کے اواخر سے خود سائنس نے ایسا پلٹا کھایا کہ بڑے سے بڑے رجان سائن کو عین سائنس تحقیقات و اکتشافات کی راہوں سے بالکل "برعکس نہند نام زنگی کافور" کا اکتشاف ہو کر رہا اور برکلے جیسے قطعی منکر مادہ فلسفی تک کی بولیاں بولی جانے لگیں۔
اتنا بہر نوع مسلم ہی ہوکر رہا کہ ہمارے ذہن سے باہر اگر کوئی نام نہاد مادی دنیا پائی بھی جاتی ہے، تو وہ الیکڑان وغیرہ برقی ذرات کی صرف مجنونانہ حرکت ہے۔ پھر خود برق یا برقی کے ذرات کی بجائے خود حقیقت نامعلوم ہی نامعلوم ہے۔ باقی وہی ہماری زمین سے آسمان تک کے حواسی ادراکات والی دنیا جس کو ہم تمام تر ذہن سے باہر محسوس کرتے رہتے ہیں، بلکہ خود اپنا بے شمار اندرونی بیروی اعضائ و جوارح والا چلتا پھرتا جسم تک ہمارے اپنے ذہنوں سے باہر قطعاً نابو ہی نابود اور بالکلیہ ذہن ہی ذہن کی تعمیر و تخلیق ہوتا ہے اور ذہن سے خارج ان کا ان کے مماچل یا ملتی جلتی چیزوں کا بھی دور دور کوئی وجود نہیں ہوتا۔(جاری ہے)
مصنف: عبدلباری ندوی
مکمل تحریر >>

پیر، 4 اپریل، 2016

دہریت کیا ہے

"دہریوں (Atheists) کے مطابق دہریت (Atheism) کوئی مذہب نہیں ہے بلکہ وہ خدا اور ما فوق الفطرت چیزوں میں یقین کا فقدان کا نام ہے، اور بقول دہریوں کے ان کی کوئی مقدس کتاب، عقیدے کا نظام اور کوئی مذہبی رہنما نہیں ہے ، اور بقول ان ہی کے وہ خود اکثر بہت سے مسائل اور خیالات میں اختلاف کرتے ہیں۔"
اب جن کا کوئی اصول نہیں ، کوئی کتاب نہیں جو ان کے نظریات کی صحیح سے غمازی کرسکے اور کوئی ایک رہنما نہیں تو پھر یہ لوگ کن نظریات پر چلتے ہیں اور ان کی کیا دلیل ہے؟؟؟
کیوں کہ یہ بات بالکل عیاں ہے کہ ہر کوئی تو خود کی تحقیق نہیں کرتا تو پھر وہ اپنے نظریات کس طرح اختیار کرتا ہے؟؟؟
جن کے خود کے نظریات غیر تحقیق شدہ ہیں وہ کیسے دہریوں یا سائنس دانوں کی بات تو مانتے ہیں مگر کائنات کے خالق اور اس کے بھیجے ہوئے بیغمبر و رہنماؤں کی بات نہیں مانتے؟؟؟
کیا یہ کھلا تضاد نہیں ہے؟؟؟


مکمل تحریر >>

بدھ، 30 مارچ، 2016

سیکولرزم کی تباہ کاریاں اوراس سے بچنے کی تدابیر

سیکولرزم کی تباہ کاریاں اوراس سے بچنے کی تدابیر
از:       (مولانا) حذیفہ وستانوی
استاذ جامعہ اسلامیہ اشاعت العلوم، اکل کوا، نندور بار
سیکولرزم، اصل میں لاطینی زبان کالفظ ہے، جسس کا عربی میں ”علمانیة“ اور اردو میں ”لادینیت“ ترجمہ ہوتاہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ رب العزت نے ایسے حیرت انگیز اور معجزانہ علمِ وحی سے مالامال کیا تھا کہ جس کی روشنی میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کی بعثت مبارکہ سے لے کر قیامت تک آنے والے تمام فتنوں سے امت کو باخبر کردیا تھا، تاکہ امت ضلالت اور گمراہی سے مکمل اجتناب کرے، الحاد اور بے دینی جو سیکولرزم کے نام سے اس وقت دنیا میں فتنہ برپا کیے ہوئے ہے، اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وہ روایت منطبق ہوتی ہے، جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ”دعاة علی ابواب جہنم من اجابہم الیہا قذفوہ فیہا“ یعنی ایک زمانہ میں امت پر ایسا وقت آئے گا جس میں شرپسندوں کے ٹولے جو جہنم کے دروازے پر کھڑے ہوں گے، انسانوں کو اور خاص کر مسلمانوں کو اس کی طر ف بلائیں گے، جو ان کی بات تسلیم کرلے گا، وہ اسے اس میں یعنی جہنم میں جھونک دیں گے، قربان جائیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعبیر بیان پر، کتنے مختصر الفاظ میں کتنی عظیم خبردی، لفظ ”دعاة“ کے ذریعہ بے دین ملحد، زندیق، سیکولر دین دشمنوں کی کثرت کی طرف اشارہ کیا، جس کا دنیا مدتوں سے مشاہدہ کررہی ہے، غالب گمان یہ ہے کہ اس حدیث سے اسی سیکولرزم کے داعیوں کی طرف اشارہ ہے، لہٰذا ہم سردست سیکولرزم کے بارے میں مختصر معلومات پیش کرنے جارہے ہیں، امید ہے کہ دل کے آنکھوں سے اس کا مطالعہ کر کے سیکولرزم کے فتنے سے اپنے آپ کو اور پورے معاشرہ کو بچانے کی فکر کریں گے، اللہم وفقنا لما تحب وترضی واجعل آخرتنا خیرا من الاولیٰ۔
سیکولرزم کیا ہے؟
 سیکولرزم در اصل ایک ماسونی یہودی تحریک ہے، جس کا مقصد حقوقِ انسانی، مساوات، آزادی، تحقیق و ریسرچ، قانون دولی (International Law) اور تعلیم کے نام پر، دین کو زندگی کے تمام شعبہ جات حیات سے نکال دینا، اور مادیت کا گرویدہ بنا کر، روحانیت سے بے زار کر دینا ہے، یہ کہہ کر کہ دین کی پیروی انسانی آزادی کے منافی ہے، لہٰذا سیاست اور دین، معیشت اور دین و معاشرت اور دین یہ سب الگ الگ ہیں ۔ دین، طبیعت اور فطرت کے خلاف ہے، لہٰذا کسی بھی دین کی پیروی درست نہیں، ان کی صورت حال ایسی ہی ہے، جیسا کہ قرآن کا ارشاد ہے: و اذا قیل لہم تعالوا الی ما انزل اللہ و الی الرسول رایت المنافقین یصدون عنک صدودا۔ (سورة النساء: پ۵/۶۱) یعنی جب ان سے کہا جاتاہے آجاوٴ اس چیز کے طرف جو اللہ نے نازل کی ہے ( یعنی دین اسلام) اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی (تعلیمات) کی طرف (یعنی شریعت پر مکمل طور پر عمل پیرا ہونے کی طرف تو (اے مسلمان) تو دیکھے گا، منافقوں کو کہ وہ لوگوں کو آپ (یعنی شریعت محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم) پر عمل کرنے سے روک رہے ہوں گے۔
یہاں قرآن کریم کا مضارع کا صیغہ ”یصدون“ لا نا اس بات کی طرف اشارہ ہے، کہ یہ صرف نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ تک خاص نہیں بلکہ استمرار کے ساتھ ہر زمانہ میں ایسا ہوگا، اور پھر آگے”صدودا“کہہ کر اشارہ کیا کہ وہ اس پر مصر بھی ہوں گے۔
سیکولرزم کا آغاز کہاں اور کیسے
سیکولرزم دراصل یورپ کی پیداوار ہے، اس کی وجہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ جب اسلام نے آکر علم کے دروازے کھولے اور اسلام کا اثر ورسوخ مشرق سے نکل کر مغرب میں غرناطہ اور بوسنیا تک پہنچا، تو اہل مغرب کی آنکھیں کھلیں، اس لیے کہ سولہویں صدی عیسوی تک یورپ میں کنیسا اور چرچ کو مکمل اثر و رسوخ حاصل تھا، جب سترھویں صدی میں اہلِ یورپ نے مسلمانوں کی علمی آزادی اور ترقی کو دیکھا اور عیسائی پادریوں اور بادشاہوں کی تنگ نظری اور تعصب کو دیکھا اور اس کے نتیجہ میں علمی تحقیقات پر پابندی اور کوئی رائے پیش کرنے والے کو ظلم کا شکار ہوتے دیکھا تو انہیں ایسا محسوس ہوا کہ عیسائیت ہی دراصل ہماری ترقی کے لیے روڑا اور رکاوٹ ہے، لہٰذا سترھویں صدی میں اہلِ مغرب نے مذہب سے بے زاری کا اعلان کردیا، اور یہ پسِ پردہ دنیا کی خفیہ ترین تخریبی تحریک ماسونیت کی کارستانیوں اور سازشوں کا نتیجہ تھا، اس طرح جب ان سیکولرزم کے حاملین کو کامیابی ملی، تو انہوں نے اعلان کیا کہ ”اب عقل کو آزادی ہوگی اور مذہب کے قید وبند سے انسان آزاد ہوگا اور طبیعت اور نیچریت کا بول بالا ہوگا“۔
جب یورپ میں سیکولرزم کو غلبہ حاصل ہوا، تو اب وہ دنیا پر راج اور سلطنت کے خواب دیکھنے لگے، اس طرح انہوں نے مشرق کا رُخ کیا اور ۱۷۸۹ء میں مصر پر حملہ کیا اور انیسویں صدی کے آنے تک پورے مشرق کو اپنی لپیٹ میں لے لیا، کچھ ناعاقبت اندیش، مادہ پرست مسلمانوں کو بھی اپنے چنگل میں لے لیا۔
 مشرق و مغرب میں سیکولرزم کے علمبردار
سیکولرزم کو پھیلانے میں جن بدباطن اور کج فکر، لوگوں نے اہم رول اور کردار ادا کیا، ان میں سے، مغرب میں ڈارون جس نے تحقیق کے نام پر ”نظریہٴ ارتقاء“ کی بنیاد ڈالی، جو دنیا کا سب سے بڑا فریب شمار کیا جاتا ہے، اسی طرح فرائیڈ نے”نظریہٴ جنسیت“ پیش کیا، اسی طرح ڈارکا یم نے ”نظریہٴ عقلیت “پیش کیا، جان پول سارترنے ”نظریہٴ وجودیت “کی تحدیدکی، پھرآدم اسمٹھ نے ”کیپٹل ازم“سرمایہ دارانہ نظام کی بنیادڈالی، کارل مارکس نے ”کمیونزم“کی بنیادڈالی، جوپچھلے تمام مادی افکار کا نچوڑاورخلاصہ تھا اور مشرق میں کمال اتاترک، طہٰ حسین، جمال عبدالناصر، انور سادات، علی پاشا، سرسید، چراغ علی، عنایت اللہ مشرقی، غلام پرویز، غلام قادیانی وغیرہ نے انہیں افکار کو مشرق میں عام کرنے کا بیڑا اٹھایا، اوراب اسی کو گلوبلائیزیشن یعنی”عالمگیریت“کانام دیدیاگیاہے، دیکھنااب کیاہوتاہے، اللہ ہماری حفاظت فرمائے۔ آمین یارب العالمین!
سیکولرزم کا ہدف
سیکولرزم کا اصل ہدف امتِ مسلمہ کو موجودہ دورمیں اسلام سے بے زارکر کے، مادیت سے وابستہ کرناہے، تاکہ مغرب کی بالادستی، برابراس پر باقی رہے، اس لیے کہ اسلامی فکر، اسلامی روحانیت اوراسلام سے وابستگی یہی مسلمانوں کی کامیابی اوربالادستی کی شاہِ کلید ہے، لہٰذامسلمانوں کو اپنی پوری توجہ، ایمان اور اس کے تقاضوں پرمرکوزکرناچاہیے، نہ کہ مادیت کے مکروفریب کے جال میں پھنسنا۔ اللہم انانسئلک العفو والعافیة فی الدین و الدنیا و الاخرة۔
سیکولر فکررکھنے والوں کی اقسام وانواع
سیکولرزم سے متأثرافرادکوتین قسموں میں تقسیم کیاجاسکتاہے:
(۱)      پہلی قسم: ان کافراوربے دین لوگوں کی، جوصراحةًاوراعلانیةً اسلام کا ہی نہیں،کسی دین کا انکارکرے، اگروہ مسلمان ہو اورایسی بات کرے تو مرتدشمارہوگا۔
(۲)      دوسری قسم:ان منافقوں کی، جونام کے مسلمان ہویعنی بظاہراسلام کو تسلیم کرتے ہوں، مگر دل میں کفرکوچھپائے ہوئے ہوں، ان کا پورامیلان اندر سے اسلام مخالف، بلکہ اسلام دشمن نظریات کی جانب ہوں، اس وقت مسلم معاشرہ میں یہ لوگ بکثرت پائے جاتے ہیں، چند نشانیوں سے ان کو پہچانا جاسکتا ہے، وہ نشانیاں یہ ہیں :
(الف)   وہ اپنے آپ کو مصلحِ ملت، مفکرِاسلام یامجددٹھہراتے ہوں، حالاں کہ اسلام اور اسلام کی بنیادوں کوڈھانے کی کوشش  کررہے ہیں، ان کی حالت اسلامی تعلیمات اورمطالبات کے بالکل برعکس ہو، یہی لوگ اسلام اورمسلمانوں کے لیے سب سے زیادہ نقصان دہ ثابت ہوتے ہیں۔
(ب)    وہ یہ آواز لگاتے ہوں کہ اسلامی تعلیمات، عصرِحاضرمیں جاری کرنے کے قابل نہیں، اس لیے کہ (العیاذباللہ)وہ فرسودہ ہیں، وہ قابلِ اعتبار نہیں، لہٰذاعالمی قانون کو مسلمان تسلیم کرلے، اس لیے کہ (العیاذباللہ)وہی مسلمانوں کے لیے شریعتِ اسلامیہ کے مقابل زیادہ نفع بخش اورمفیدہے۔
(ج)     وہ اباحیت پسندی کے شکارہوں،حرام کو حلال کرنے اورحلال کوحرام کرنے کے درپے ہوں، اوراس کواپنے گناہ کی سنگینی کا احساس بھی نہ ہو۔
(د)      دین پر عمل کرنے والوں کو حقارت کی نگاہ سے دیکھتے ہوں اوردینی شعائرمثلاً،ڈاڑھی، ٹوپی، کرتہ وغیرہ کا مزاق اڑاتے ہوں اوردیندارکوکم عقل تصور کرتے ہوں۔
(ھ)     اس کے فکری رجحان کی کوئی سمت متعین نہ ہو، جدھرکی ہواادھرکا رُخ، اس کی طبیعت ثانیہ ہو، مثلاًجب تک روس کوغلبہ تھاکمیونزم کے حامی، اور اب امریکہ کو غلبہ حاصل ہے، تو سرمایہ داریت اورجمہوریت کے شیدائی ہوں۔
(۳)     تیسری قسم: ان مسلمانوں کی ہے، جوسیکولرزم اورجمہوریت،حقوقِ انسانی،آزادیٴ نسواں،آزادیٴ رائے،دین اورسیاست میں تفریق جیسے اصطلاحات سے متأثرہوں،جن کو آج کل مغربیت زدہ مسلمان، کہاجاتاہے، یہ اسلام کو مانتے ضرور ہیں، اس کی حقیقت کے بھی قائل ہیں، مگردینی علم سے دوری یاکمی کی وجہ ان خوشنمااصطلاحات سے متأثرہوگئے ہوں۔
سیکولرزم کو عام کرنے کے اسالیب
اسلام دشمن طاقتوں نے خاص طورپر صہیونی، صلیبی اشتراک، جس کوماسونیت بھی کہاجاسکتاہے، سیکولرزم کومسلمانوں میں عام کرنے کے مختلف طریقے اپنائے۔
(۱)      الیکڑانک اورپرنٹ میڈیا کے ذریعہ یہ پروپیگنڈہ کرنا کہ اسلام، یہ دور انحطاط کی کھوج ہے، اور اس کی تعلیمات، روایات قدیمہ کی حامل ہے، (العیاذ باللہ) مادی ترقی کے دور میں قابل عمل نہیں رہا، حالاں کہ ایسا ہرگز نہیں، الحمدللہ! کسی بھی زمانہ میں انسان کی حقیقی ترقی، جس کو روحانی ترقی سے بھی تعبیر کیا گیا ہے، اس کا حامل اگر ہے تو یہی اسلام، اس لیے کہ انسان کی حقیقی ترقی یہ ہے کہ وہ اپنے خالق و مالک کو راضی کرلے ، اور دنیا میں اس کا تقرب حاصل کرلے، قرآن کا اعلان ہے ”ان اکرمکم عنداللّٰہ اتقٰکم“ (سورة الحجرات:پ۲۶، آیت۱۳)تم میں سب سے زیادہ مکرم و معزز و برگزیدہ اللہ رب العزت کے نزدیک وہ ہے، جو سب سے زیادہ پرہیزگار ہو یعنی گناہوں سے اسی طرح لوگوں کو اور مخلوق کو تکلیف دینے سے مکمل اجتناب کرتا ہو، یہ ہے اصل ترقی کا زینہ۔
(۲)      العیاذ باللہ یہ پروپیگنڈہ کرنا کہ اسلام خونی مذہب ہے، یعنی اس کی تاریخ ظلم و جور سے بھری ہوئی ہے، حالاں کہ حقیقت اس کے برعکس ہے، اگر تاریخ کا غائرانہ مطالعہ کریں، تو معلوم ہوگا کہ پچھلے سو سال میں جمہوریت اور سیکولرزم کے نام پر دنیا میں جتنا ظلم ہوا اور قتل و غارت گیری ہوئی، اسلام میں، اس کی ایک بھی نظیر نہیں ملتی، ایک سروے کے مطابق ”اوریا مقبول جان“ مشہور صحافی تحریر فرماتے ہیں کہ پچھلے سو سال میں تقریباً سترہ کروڑ انسانوں کو جمہوریت کے بھینٹ چڑھا دیا گیا، اس سے سولہویں صدی میں ریڈ اینڈینز کو سو ملین کی تعداد میں نئی دنیا کی دریافت کے نام بے قصور موت کے گھاٹ اتار دیا گیا، غرناطہ میں تیس لاکھ مسلمانوں کو صلیبیت کے نام پر قربان کردیا گیا، فلسطین میں لاکھوں مسلمانوں اور یہودیوں کو عیسائیوں نے بلاجرم قتل کردیا، جب کہ اسلامی تاریخ میں مسلمان امراء کی فراخ دلی، رعایا سے ہمدردی اور انصاف کوئی پوشیدہ چیز نہیں، نیک مسلمان سلطانوں اور امراء نے تو ظلم کیا ہی نہیں، بل کہ فاسق و فاجروں بھی نے کیا بھی ہوگا، تو وہ اس ظلم کے سویں حصہ کیا، یا ہزارویں حصہ کے برابر بھی نہیں ہے، ہماری تاریخ خونی اور ظالمانہ نہیں، اگر ظالمانہ تاریخ ہے، تو تاریخ، انہی سیکولرزم کی نعرہ دینے والوں کی ہے، مگر اپنا عیب چھپانے کے لیے وہی اپنا قصور مسلمانوں پر تھوپ دیا ”فانتظروا انا معکم منتظرون“۔ (سورہٴ یونس:پ۱۱،آیت۳)
(۳)     قرآن و حدیث کے بارے میں یہ پروپیگنڈہ کرنا کہ وہ ایک خاص جماعت او ر نسل کے لیے نازل کیا گیا تھا، یا یہ کہنا کہ قرآن و حدیث کی، العیاذ باللہ کوئی حقیقت نہیں ، وہ تو انسان ہی کا مرتب کردہ ہے، جب کہ حقائق اس کا صراحت کے ساتھ انکار کرتے ہیں، قرآن کا اعلان ہے ”کتاب اَنزلنٰہ الیک۔ (سورة ابراہیم:پ۱۳،آیت۱)  و ما ینطق عن الہوی ان ہو الا وحی یوحیٰ“ وغیرہ۔(سورة النجم:پ۲۷،آیت۲،۳)
(۴)     ایمان بالغیب کا انکار کرنا اور اس کا مزاق اڑانا اور یہ کہنا کہ نیچریت اور طبیعت اس کو تسلیم نہیں کرتی، اور اس کے بارے میں یہ کہنا کہ ملائکہ، جن، جنت، دوزخ ،حساب، برزخ، قدر، معراج، معجزات، انبیاء وغیرہ، یہ سب محض خرافات ہیں، اس کی کوئی حقیقت نہیں، حالاں کہ قرآن نے پہلے پارے کے پہلے ہی رکوع میں متقی مسلمانوں کا وصف بیان کرتے ہوئے کہا ”یوٴمنون بالغیب“ (سورة البقرة:پ۱، آیت۳) وہ غیب پر ایمان رکھتے ہیں۔اور اس طرح نقل کو عقل پر ترجیح کے قائل ہیں۔
(۵)      مسلمان معاشرہ میں موجود اخلاقی قدروں کو ملیامیٹ کرنا اور اباحیت پسندی کو فروغ دینا، تعلیمی نصاب میں ایسا مواد سمو دینا، جس سے ابناء قوم طفولیت ہی سے ایمان باللہ، ایمان بالقیامة سے محروم رہے ،اور جنسیت، مادیت، فیشن پرستی کا دلدادہ ہو جائے، ماحول ایسا بنا دیا جائے کہ عشق بازی، حیاسوزی، نوجوانوں کی عادت بن جائے، ایسی ایسی فلمیں اور سیریلیں بنائی جائیں، جس میں مار پیٹ، لڑائی، جھگڑا، فتنہ، فساد، عشق و محبت، بداخلاقی و بدکرداری کو فروغ حاصل ہو ، حالاں کہ بداخلاقی، بدکرداری، عشق بازی، فتنہ فساد سے، تعلیمات اسلامیہ مکمل اجتناب کا درس دیتی ہیں۔
(۶)      توحید کے مقابلہ میں روشن خیالی، مزعوم اعتدال پسندی کو جس کو دوسرے لفظوں میں Modernism کہاجاسکتا ہے، ہر طبقہ میں عام کرنے کی مکمل کوشش کی جارہی ہے، جو سراسر اسلامی تعلیمات کے منافی اور معارض ہے۔
(۷)     اسلام کے خلاف جاری فکری یلغار کو ثقافت اور تبادلہٴ ثقافت کا نام دیا جارہا ہے، تاکہ فکری یلغار کا احساس زندہ نہ ہو، اور مسلمان مِن و عَن مغربی ثقافت کو دلجمعی کے ساتھ قبول کرلے۔
(۸)     بلادلیل و برہان اسلام کو ”دہشت گرد“ اور مسلمانوں کو متعصب اور ظالم، قاتل و سفاک اور بے رحم ثابت کیا جارہا ہے، تاکہ لوگ اسلام اور مسلمان سے متنفر رہے، اور اسلام کو فروغ حاصل نہ ہو۔
(۹)      شراب، جوا، سود اور محرمات کو خوشنما اور نئے نئے ناموں سے مسلمانوں میں متعارف اور عام کیا جارہا ہے، تاکہ حلال و حرام کی تمیز باقی نہ رہے، اور مسلمان بے دھڑک اس کی خرید و فروخت اور استعمال میں مشغول ہو جائے۔
(۱۰)     اسلام اور اس کی تعلیمات مثلاً حدود، تعزیرات وغیرہ اور اسلامی شخصیات، مثلاً رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، صحابہ، مجاہدین وغیرہ سے استہزاء اور ان کی زندگیوں کو توڑ مروڑ کر پیش کرکے مشکوک کرنا وغیرہ، اللہ ان ملعون حرکات کرنے والوں کو غارت کرے اور مسلمانوں کے دلوں کو اسلام ، اسلامی شخصیات اور اس کی تعلیمات کی محبت سے لبریز کردے۔ آمین یا رب العالمین!
(۱۱)     مغربی باطل نظریات کو خوب عام کرنا، اور ہر ممکن یہ کوشش کرنا کہ ان باطل نظریات کے حاملین کو علم و تحقیق کے باب میں بلند ترین مقام دینا، اور یہ کہنا کہ یہی لوگ حقیقت میں دنیائے علم و تحقیق کے درخشندہ ستارے ہیں اور انہوں نے دنیا پر بڑا احسان کیا، حالاں کہ حقیقت اس کے برعکس ہے، کیوں کہ علم و تحقیق کے نام پر انہوں نے دنیا کو گمراہ کیا، مثلاً ڈارون ،فرائیڈ، مارگو لیٹھ، کارل مارکس، آدم اسمیٹھ، دور کایم، جان پول، وغیرہ یہ ائمہ ضلال تو ہوسکتے ہیں، مگر محسن نہیں ہوسکتے، لعنة علیہم و الملائکة والناس اجمعین!
سیکولرزم کے بارے میں شرعی فیصلہ
 علمائے اسلام اور فقہاء عظام نے سیکولرزم کو ایک مستقل مذہب قرار دیا ہے، جس کو ”دہریت“ کہا جاسکتا ہے، لہٰذا وہ کفر صریح ہے، اور مسلمانوں کو اس کا مقابلہ کرنا ضروری ہے، مسلمانوں میں سیکولرزم فکرکے ان حاملین کو منافقین کہا جائے گا، جو اسلامی تعلیمات کا انکار کرے، سیکولرزم کو حق بجانب تصور کرے، اسلامی محرمات کو حلال گردانے۔
سیکولرزم کے دنیا پر اثرات
سیکولرزم نے سب سے زیادہ نقصان عالم اسلام کو پہنچایا، اس لیے کہ سیکولر فکرکے حاملین نے، جس میں کمال اتاترک جیسے لوگ شامل ہیں، خلافتِ اسلامیہ کے سقوط کے سبب بنے، اور عظیم دولت عثمانیہ اسلامیہ کو تقسیم در تقسیم سے دوچار کیا، یہاں تک کہ وہ پچاس حصوں میں تقسیم ہوگئی، اسرائیل کا ناپاک وجود اسلامی ریاستوں کے بیچ عمل میں آیا۔ دنیا میں فحاشی، بدکاری، اور ہر برائی کو پھیلانے کے راہیں ہموار ہوگئیں، اور پوری دنیا کو جمہوریت اور عالمگیریت کے نام پر جہنم کدہ بنا دیا گیا۔
اسلام کے غلبہ کی راہیں کیسے ہموار ہوسکتی ہیں؟
ہم مسلمان ،ہیں ہمارا دین، دین برحق ہے ہمارا رب اللہ ہے، جو قادر مطلق مالک الملک الہ واحد اور ذوالجود والکرم ہے اور ہمارے رسول خاتم النبیین سید المرسلین ہیں، اور ہماری تعلیمات ہر زمانہ میں انصاف امن وسلامتی کی ضامن ہیں، اسی کو حق ہے کہ وہ دنیا پر قیادت وسیاست کرے، مگر ہم نے اس کی قدر نہ کی ذلت ومسکنت کے شکار ہوئے، اب ہمیں کرامت اور غلبہ کیسے دوبارہ ہوسکتا ہے، اس پر غور کرنے کی ضرورت ہے، تو آئیے ہم اسی پر روشنی ڈالتے ہیں۔
(۱)      سب سے پہلے ہمارے لیے ضروری ہے کہ ہم اپنے ایمان میں رسوخ پیدا کریں کیوں کہ قرآن کا اعلان ہے” وانتم الاعلون ان کنتم موٴمنین“۔(آل عمران:۱۳۹) تم ہی سر بلند رہو گے اگر موٴمن رہو۔ موٴمن کس کو کہتے ہیں؟ دل وجان سے اسلام کو تسلیم کر کے، اس پر عمل کرنے اور اس پر سب کچھ قربان کردینے کا نام ہے ایمان اور موٴمن ہونا۔
(۲)      کتاب اللہ اور سنت رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کو ہر حالت میں ہم مضبوطی کے ساتھ تھام لیں، یعنی ہمارا ہر قول اور ہر عمل قرآن وسنت کے منشاء کے مطابق ہوجائے، حدیث میں ہے ”ان تمسکتم بہما لن تضلوا بعدی ابدا“۔
(۳)     تقویٰ، یعنی ہرحالت میں اللہ سے ڈرنے لگ جائیں، اور ہر طرح کے منکر اور حرام سے مکمل اجتناب کریں، اور ہر فرض وسنت کو اپنی زندگی کا لازمی جز بنائیں۔
(۴)     اسلا می تعلیمات کوخوب عام کریں، اور یقین رکھیں کہ کامیابی اسی پر عمل کرنے میں ہے نہ کہ کسی اور چیز میں۔
(۵)      دعا کا التزام کریں، اپنے لیے پوری امت کے لیے، رو رو کر اللہ کے دربار میں دعائیں کریں، خاص طور پر یہ دعا کریں کہ اللہ امت کو منافقین کے شر سے نجات دے اور بچائے اور اسلام پر ثابت قدم رکھے۔
(۶)      غفلت سے بیدار ہو، اور دشمنوں کے مکر وفریب سے اور ان کے سازشوں سے واقف ہوں اور اس سے بچنے کی تدابیر کریں، اللہم اجعل کیدہم فی تضلیل۔
(۷)     اس وقت سب سے بڑی ضرورت اسلامی تعلیمات سے واقف ہونا ہے، لہٰذا اس جانب توجہ دیں، تا کہ حلال حرام کی تمیز ہو سکے، علماء سے اپنے مسائل میں رجوع کریں، اور اپنے بچوں کی اسلامی تربیت کی فکر کریں۔
(۸)     ٹیلی ویژن کی نحوست سے اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کو، کوسوں دور رکھیں ،فلم، کھیل کود اور فضول چیزوں میں وقت صرف نہ کرکے اللہ کی طرف متوجہ ہوں۔
اللہ ہماری ہر طرح کے شر سے حفاظت کرے اور ہر طاعت کے کرنے کی توفیق دے اور پوری امت کو اسلام سے وابستہ کردے۔آمین یا رب العالمین!
***

 مأخوذ

مکمل تحریر >>

اتوار، 27 مارچ، 2016

حقوق انسانی کا پہلا منشور اسلام نے جاری کیا

حقوق انسانی کا پہلا منشور اسلام نے جاری کیا
 عام طور پر دو سو برس قبل برپا ہونے والے ’’انقلابِ فرانس‘‘ کے اس اعلان کو انسانی حقوق کا سب سے پہلا اعلان کہاجاتا ہے جس میں تمام انسانوں کی آزادی ، مساوی حقوق اور تحریر وتقریر کی آزادی کو اولیت دی گئی ہے، اس کے بعد ۱۹۴۸ء میں عالمی ادارے اقوام متحدہ نے حقوق انسانی کی فہرست پر ازسر نو توجہ دی اور تیس دفعات پر مشتمل ’’انسانی حقوق کا ایک عالمی منشور منظور کیا جس کا لب لباب یہ ہے کہ ’’آزادی ہر انسان کا پیدائشی حق ہے بنیادی طور پر تمام انسانوں کے حقوق ومراتب یکساں ہیں۔
مذہب ذات پات یا جنس ورنگ کی بنیاد پر کوئی شخص امتیازی یا ترجیحی سلوک کا حقدار نہیں، اسی طرح انسانوں کی خرید وفروخت ان کے ساتھ وحشیانہ سلوک یا اہانت آمیز رویہ اپنایا نہیں جاسکتا وغیرہ لیکن اسلام نے اس سے چودہ سو برس قبل ہی انسانی حقوق کا کامل ومکمل اعلان کردیا تھا اور ایک ایسے دور میں کیا تھا جب ہر طرف جہالت کی تاریکی چھائی ہوئی تھی اور انسانی حقوق سے دنیا قطعی نابلد وناواقف تھی ، اس وقت طاقت واقتدار ہی حق کا معیار سمجھاجاتا تھا۔ شخصی آزادی کا تصور بھی نہ تھا اور کمزور کو طاقتور کے آگے لب کشائی کی اجازت تک نہ تھی، انسانی حقوق کا یہ پہلا منشور کسی خاص قبیلے، مخصوص قوم یا ملک کیلئے نہ تھا بلکہ بلا تعین وتخصیص پوری دنیا اس کے دائرہ میں سمٹ آئی تھی اور اس منشو ر کا صرف اعلان ہی نہیں کیا گیا بلکہ اس کو عملی جامہ بھی پہنایا گیا جس کی سینکڑوں مثالوں سے تاریخ وسیرت کی کتابیں بھری پڑی ہیں۔ مثلاً ایک مسلمان رسول پاکؐ کی خدمت میں حاضر ہوکر عرض کرتا ہے کہ اے اللہ کے رسول ﷺ آپ میرے دونوں بیٹوں کو بھی مسلمان بنالیجئے اس پر سورہ بقرہ کی یہ آیت نازل ہوتی ہے کہ
’’دین کے مقابلہ میں کسی سختی کی ضرورت نہیں گمراہی اور ہدایت دونوں واضح ہوچکی ہیں جسے جو راستہ پسند ہے اسے وہ اختیارکریگا۔‘‘
اسلام نے صرف عقیدہ کی آزادی کا ہی احترام نہیں کیا بلکہ اس کے ساتھ دوسری آزادیوں مثال کے طور پر عبادت کی آزادی،شخصی آزادی تحریر وتقریر کی آزادی اور سیاسی شہری آزادی کو بھی برت کردکھایا ہے۔ ایک معمولی شخص فرمانروائے وقت سے بھری محفل میں سوال کرسکتا ہے اسی طرح اسلام ہی وہ واحد مذہب ہے جس نے انسانوں کو بتایا کہ وہ برابر ہیں ان کے حقوق وفرائض بھی یکساں ہیں۔ حسب ونسب ،رنگ ونسل، دولت وحیثیت کی بنیاد پر کسی کو کسی پر ترجیح نہیں ہے۔ اسلام میں بزرگی یا برتری کا معیار صرف خدا ترسی اور خدمتِ خلق ہے لہذا قرآن حکیم میں جگہ جگہ اس امر کی نشاندہی کی گئی کہ ’’اے لوگو! ہم نے تم سب کو ایک مرد آدم اور ایک عورت حوا سے پیدا کیا ہے اور پھر تمہیں مختلف گروہوں اور قبیلوں میں (صرف) اس لئے تقسیم کردیا تھا کہ تم ایک دوسرے کو شناخت کرسکو، ورنہ حقیقت تو یہ ہے کہ بزرگی کا معیار صرف خدا ترسی ہے (سورہ حجرات) اسی رہنما اصول کے تحت حضرت بلال حبشیؓ ، حضرت ابوبکر صدیقؓ جیسے اعلیٰ نسب قریشی کے بھائی بن گئے۔ حضرت صہیب رومیؓ اور حضرت سلمان فارسیؓ تمام مسلمانوں کے ہم پلہ قرار پائے۔
اسلام نے جہاں مساوات کا اعلان کیا وہیں یہ بھی کہا کہ ہر مسلمان کو تعلیم حاصل کرنے کا حق ہے بلکہ تعلیم کو اس نے فرض قرار دیکر ایک امتیازی روایت کی بنیاد ڈالی۔ اسلام سے پہلے کسی ملک وقوم نے تعلیم کو فرض قرار نہیں دیاتھا۔ مگر حضور پاک ﷺ کا فرمان ہے ’’علم حاصل کرنا ہرمومن مردوعورت پر فرض ہے‘‘ قرآن حکیم میں بھی اس کی تاکید آئی ہے۔ اور جس کی ہر مسلمان کو شدید ضرورت ہے۔

مکمل تحریر >>

ہفتہ، 26 مارچ، 2016

لبرلز کی ڈوگلی پالیسی

ایک لبرل نے لکھا کہ نبی ﷺ علاقائی کلچرز میں شرکت کرتے تھے لہذا آج ساری دنیا ایک علاقہ بن چکی ہے اس لئے مسلمانوں کو چاہئے کہ شرکت کریں،
قطعہ نظر اس سے کہ اس نے جو بات نبی ﷺ کی طرف منسوب کی ہے اس میں کتنی سچائی ہے،
ذرا مجھے یہ بتالئیں کہ آج ساری دنیا کس طرح ایک علاقہ ہے، ایک ملک سے دوسرے ملک جانے کے لئے ویزا، پاسپورٹ وغیرہ کی ضرورت۔
حالاں کہ پہلے زمانہ میں تو بھی ساری دنیا یا اکثر حصہ ایک علاقہ کی طرح ہوتا تھا خصوصاً اسلامی خلافت کے ادوار میں کہ اس میں نہ تو پاسپورٹ کی ضرورت تھی نہ ہی ویزا کی ہر کوئی ہر جگہ سفر آسانی سے کرسکتا تھا۔
نیز ان لبرلز کو اسلامی اعیاد میں تو اسراف نظر آتا ہے اور غریب عوام یاد آتی ہے اور غیروں کے ان کلچرز جن میں اسراف و فضول خرچی عام ہوتی ہے اس کو منانے کی دعوت دیتے ہیں؟؟؟


مکمل تحریر >>

بدھ، 2 مارچ، 2016

ایک عورت کے لیے متعدد خاوند ہونے کی ممانعت

 حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی رحمہ اللہ تعالیٰ کا کلام معرفت الیتام
حق جل شانہ کا ارشاد ہے، نساء کم حرث لکم۔ آیت۔ یعنی تمہاری عورتیں تمہارے کھیت ہیں اس سے صاف روش ہے کہ نکاح سے مقصود اولاد ہے کیونکہ کھیت سے مطلوب پیدوار ہوتی ہے اور ظاہر ہے کہ اس کھیت کی پیدوار یہی اولاد ہے گہیوں چنا وغیرہ نہیں اس سے یہ بھی معلوم ہوگیا کہ شیعوں کے نزدیک جو سارے جہان کے خلاف اپنی بی بی سے اغلام درست ہے کہ وہ کلام اللہ کے بھی مخالف ہے مگر اغلام سے تولد اولاد متصور نہیں مگر ہاں شاید شیعوں میں یہ کرامت ہو کہ نطفہ ادھر سے ادھر چلا جاتا ہو باقی رہا جملہ، فاتوا حرثکم انی شئتم۔ آیت۔ جس کا یہ مطلب ہے کہ اپنی زمین میں بیچ ڈالنے کے لیے شرق کی طرف سے جاؤ یا غرب کی طرف سے بہر حال تم کو اختیار ہے او اس سے ہر کوئی یہی سمجھتا ہے کہ مقصود اصلی بونا ہے وہ دونوں طرف سے جانے میں برابر حاصل ہے اور پیدوار دونوں میں ایک طرح سے ہوگی ایسے ہی اس جملہ سے ہر عاقل یہی سمجھے گا کہ اپنی بییبوں سے الٹے سیدھے جس طرح چاہو صحبت کرو تولد اولاد میں دونوں صورتیں برابر ہیں یہ نہیں کہ سیدھی صحبت کیجئے تو بچا اچھا ہوا اور الٹی کیجئے تو احول (بھینگا) پیدا ہوجیسا کہ یہودی کہا کرتے تھے چنانچہ اسی وہم فاسد کے ازالہ اور دفع کے لیے یہ ارشاد ہوا فاتواحرثکم انی شئتم۔ آیت۔ مگر علماء شیعہ کی خوش فہمی دیکھئے کہ بات کیا تھی اور کیا مطلب سمجھ گئے مگر وہ بھی کیا کریں اگر متعہ اور اغلام نہ ہوتا تو خواص تو متنفر تھے ہی عوام کالانعام بھی اس مذہب کو پسند نہ کرتے۔

 علاوہ بریں ولد صالح کا باقیات صالحات میں سے ہونا بھی اولاد کے مقصود ہونے پر شاید ہے کیونکہ اگر شہوت رانی ہی مقصود اور اولاد مقصود نہ ہوتی تو ان کے حساب سے اولاد کا ہونا اور نہ ہونا برابر ہوتا اگر صالح ہوتی تو کیا اور فاسق ہوئی تو کیا اور علی ہذا القیاس سقی ماء غیر یعنی عورت حاملہ من الغیر سے جماع حرام نہ ہوتا چنانچہ ظاہر ہے بہرحال مقصود اصلی نکاھ سے اولاد ہے شہوت رانی مقصود اصلی نہیں جیسے اکل غذاء سے بدل مایتحلل مقصود ہے اور بھوک مثل چپراسی سرکاری اس بیگار کے لیے متقاضی ہے ایسے ہی عورتوں سے اولاد مطلوب ہے اور شہوت جماع تقاضا جماع کے لیے ساتھ لگا دی گئی مگر جب اولاد مقصود ٹھہری چنانچہ آیت مسطور اس پر شاہد ہے اور نیز عقل سلیم اس پر گواہ تو پھر ایک عورت کا زمانہ واحدہ میں دو یا زیادہ مردوں سے نکاح کی اجازت قرین عقل نہ ہوگی اس لیے کہ زمین کی پیدوار تو سب ایک سی ہوتی ہے اور اس کے سب دانے باہم متشابہ ہوتے ہیں خورش میں سب یکساں کسی کو کسی پر کچھ فوقیت نہیں اس لیے شرکت میں کوئی خرابی پیش نہیں آتی علی السویہ تقسیم ہوسکتی ہے پر اولاد میں اگر اشتراک تجویز کیا جائے تو ایک نزاع عظیم برپا ہوجائے اس یے کہ اول تو یہی کچھ ضرور نہیں کہ ایک سے زیادہ بچہ پیدا ہو اور دو تین پیدا بھی ہوئے تو کچھ ضرور نہیں کہ سب لڑکے ہی ہوں یاسب لڑکیاں ہی ہوں اور پھر سب ایک ہی نمبر کے عاقل وفاضل ہوں بلکہ عادت اللہ یوں ہی جاری ہے کہ جیسے پانچوں انگلیاں یکساں نہیں ہوتیں ایسی ہی تمام اولاد یکساں نہیں ہوتی تو پھر تقسیم اولاد کی کیا صورت ہوگی۔ خاص کر جب کہ بچہ ایک ہو اور عورت کے خاوند متعدد ہوں یا خاوند کا عدد تو زوج ہو اور اولاد کا عدد طاق ہو تو اور بھی دشواری ہوگی ہاں اگر اولاد کاٹنے پھاٹنے کے قابل ہوتی تو مثل غلہ مشترک پاجامہ مشترک کاٹ پھاٹ کربرابر کرلیتے اور نزاع دفع کرلیتے بامثل غلام عورت کاہر وقت ایک حال رہتا اور یہ تفاوت احوال اور اختلاف کیفیا مزاجی نہ ہوتا تو ہفتہ وار یا ماہوار یاسال وار ایک خاوند کے پاس رہا کرتی مگر اول تو ہر دم اور ہرحال میں رحم زن نطفہ کو قبول نہیں کرتا دوسرے یہ کہ اختلاف احوال زن بسااوقات اختلاف زکورت وانوثت اور عقلی اور بے عقلی کاسبب بن جاتا ہے چنانچہ جو لوگ دقائق طبیہ اور حقائق موجبات اختلاف امزجہ اولاد سے واقف ہیں وہ خوب جانتے ہیں کہ وقت جماع جو کیفیت والدین اور خصوصا والدہ پر غالب ہوتی ہے وہی کیفیت اولاد کے حق میں خلق اور طبیعت بن جاتی ہے والدین کی کیفیت مزاجی کو اولاد کے اخلاق اور عقل میں داخل تام ہے الغرض بوجہ تفاوت احوال معلومہ یہ ممکن نہیں کہ غلام کی طرح عورت نوبت بنوبت ہر خاوند کے پاس رہا کرے کیونکہ خدمت غلام کوئی امر معین نہیں جو اس کی مقدار تعین نوبت میں ملحوظ رہے اس لیے وہاں وہ زمانہ جس میں خدمت معتد بہ تمام شرکاء کے نزدیک ادا کرسکے معین ہوسکے گا اور عورت میں خدمت فراش یعنی جماع کی مقدار نوبت کی تعین نہایت دشوار ہے علاوہ ازیں مرد میں ہر لحظہ حاجت الی الجماع کا احتمال ہے اور یہ حاجت بدون عورت کے رفع ہونا محال ہے بخلاف غلام کے اگر غلام موجود نہ ہو تو وہ اپنا کاروبار اپنے ہاتھ سے بھی انجام دے سکتا ہے اور جماع میں یہ متصور نہیں تو ان وجوہ سے زوجہ میں شرکت خلاف مصلحت ہوئی ملخص ازاجوبہ اربعین از ص ١٨ ج ٢ تا ص ٢٢ ج ٢)۔ الغرض شریعت نے ان فتنوں کا دروازہ بند کرنے کے لیے ایک عورت کے لیے متعدد مردوں سے نکاح کو ممنوع اور حرام قرار دیا۔
مکمل تحریر >>

پیر، 29 فروری، 2016

ایک عورت کے لیے متعدد خاوند ہونے کی ممانعت کی وجہ

 ایک عورت کے لیے متعدد خاوند ہونے کی ممانعت کی وجہ

 ١۔ اگر ایک عورت چند مردوں میں مشترک ہو تو بوجہ استحقاق نکاح ہر ایک وقضا حاجت کا استحقاق ہوگا اور اس میں غالب اندیشہ فساد اور عناد کا ہے شاید ایک ہی وقت میں سب کو ضرورت ہو اور عجب نہیں کہ نوبت قتل تک پہنچے۔ ہندوؤں کے بعض فرقوں کے مذہب میں یہ جائز ہے کہ پانچ بھائی مل کر ایک عورت رکھ لیں بے غیرتوں کا مذہب بے غیرتی ہی کی باتیں بتلاتا ہے اسلام جیسا باغیرت مذہب ہرگز ہرگز اس کی اجازت نہیں دیتا کہ عورت کبھی کسی سے ہم آغوش اور ہم کنار ہو اور کبھی کسی سے۔
 ٢۔ مرد فطرتا حاکم ہے اور عورت محکوم ہے اس لیے کہ طلاق کا اختیار مرد کو ہے جب تک مرد عورتوں کو آزاد نہ کرے تو عورت دوسرے مرد سے نکاح کرسکتی ہے جیسے باندی اور غلام باختیار خود قید سے نہیں نکل سکتے اسی طرح عورت باختیار خود قید نکاح سے نہیں نکل سکتی باندی اور غلاموں میں اگر اعتاق ہے تو عورتوں میں طلاق غرض یہ کہ جب مرد حاکم ہوا تو عقلا یہ توجائز ہے کہ ایک حاکم کے ماتحت متعدد محکوم ہوں اور متعدد اشخاص کا ایک حاکم کے ماتحت رہنا نہ موجب ذلت وحقارت ہے نہ موجب صعوبت۔ بخلاف اس کے کہ ایک شخص متعدد حاکموں کے ماتحت ہو تو ایسی صورت میں کہ جب محکوم ایک ہو اور حاکم تعدد ہوں تو محکوم کے لیے عجب مصیبت کاسامنا کہ کس کس کی اطاعت کرے اور ذلت بھی ہے جتنے حاکم زیادہ ہوں گے اسی قدر محکوم میں ذلت بھی زیادہ ہوگی۔ اس لیے شریعت اسلامیہ نے ایک عورت کو دو یا چار خاوندوں سے نکاح کی اجازت نہیں دی اس لیے کہ اس صورت میں عورت کے حق میں تحقیر وتذلیل بھی بہت ہے اور مصیبت بھی نہایت سخت ہے۔ نیز متعدد شوہروں کی خدمت بجالانا اور سب کو خوش رکھنا ناقابل برداشت ہے اس لیے شریعت نے ایک عورت کو دو یا چار مردوں سے نکاح کی اجازت نہیں دی تاکہ عورت اس تذلیل وتحقیر اور ناقابل برداشت مشقت سے محفوظ رہے۔

 ٣۔ نیز اگر ایک عورت کے متعدد شوہر ہوں تو متعدد شوہروں کے تعلق سے جو اولاد پیدا ہوگی وہ ان میں سے کس کی اولاد ہوگی اور ان کی تربیت کس طرح ہوگی اور ان کی وراثت کس طرح تقسیم ہوگی نیز وہ اولاد چاروں شوہروں کی مشترکہ ہوگی یا منقسمہ او تقسیم کس طرح ہوگی اگر ایک ہی فرزند ہوا تو چار باپوں میں کس طرح تقسیم ہوگا اور اگر متعدد اولاد ہوئی اور نوبت تقسیم کی آئی تو بوجہ اختلاف ذکورت وانوثت اور بوجہ تفاوت شکل وصورت اور بوجہ اختلاف قوت وصحت اور بوجہ تفاوت فہم وفراست موزانہ تو ممکن نہیں اس لیے کہ اس تفاوت کی وجہ سے تقسیم اولاد کا مسئلہ غایت درجہ پیچیدہ ہوگا اور نہ معلوم باہمی نزاع سے کیا کیا صورتیں اور فتنے رونما ہوں۔(مأخوذ تفسیر معارف القرآن لادریس کاندھلوی)
مکمل تحریر >>

مسئلہ تعدد ازدواج

 مسئلہ تعدد ازدواج

 شریعت اسلامیہ غایت درجہ معتدل اور متوسط ہے افراط اور تفریط کے درمیان میں ہے نہ تو عیسائیوں کے راہبوں اور ہندوؤں کے جوگیوں اور گسایوں کی طرح ملنگ بننے کی اجازت دیتی ہے اور نہ صرف ایک عورت ہی پر قناعت کرنے کو لازم گردانتی ہے بلکہ حسب ضرورت ومصلحت ایک سے چار تک اجازت دیتی ہے۔ چنانچہ پادری لوگ بھی نظر عمیق کے بعد اسی کا فتوی دیتے ہیں جیسا کہ کتاب مسمی بہ اصلاح سہو مطبوعہ امریکن مشن پریس ١٨٧١ ء میں لکھتے ہیں کہ تعدد ازددواج بنی اسرائیل میں تھا اور خدا نے اس کو منع نہیں کیا بلکہ برکت کا وعدہ کیا اور عارئین لوتھر نے فلپ کو دو جروں کی اجازت دی تھی منقول از تفسیرحقانی ص ١٦٦ ج ٣۔ تاریخ عالم کے مسلمات میں سے ہے کہ اسلام سے پہلے تمام دنیا میں یہ رواج تھا کہ ایک شخص کئی کئی عورتوں کو اپنی زوجیت میں رکھتا تھا اور یہ دستور تمام دنیا میں رائج تھا حتی کہ حضرات انبیاء بھی اس دستور سے مستثنی نہ تھے۔ حضرت ابراہیم کی دوبیبیاں تھیں حضرت سارہ اور حضرت ہاجرہ حضرت اسحاق کے بھی متعدد بیویاں تھیں حضرت موسیٰ کے بھی کئی بیویاں تھیں اور سلیمان (علیہ السلام) کے بیسوں بیویاں تھیں اور حضرت داوؤد (علیہ السلام) کے سو بیویاں تھیں اور توریت وانجیل ودیگر صحف انبیاء میں حضرات انبیاء کی متعدد ازواج کا ذکر ہے اور کہیں اس کی ممانعت کا ادنی اشارہ بھی نہیں پایا جاتا صرف حضرت یحیٰی اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) ایسے نبی گزرے ہیں کہ جنہوں نے بالکل شادی نہیں کی ان کے فعل کو اگر استدلال میں پیش کیا جائے تو ایک شادی بھی ممنوع ہوجائے گی احادیث میں ہے کہ عیسیٰ (علیہ السلام) قیامت کے قریب آسمان سے نازل ہوں گے اور نزول کے بعد شادی فرمائیں گے اور ان کے اولاد بھی ہوگی۔ غرض یہ کہ علماء یہود اور علماء نصاری کو مذہبی حیثیت سے تعدد ازواج پر اعتراض کا کوئی حق نہیں صرف ایک ہی بیوی رکھنے کا حکم کسی مذہب اور ملت میں نہیں نہ ہندوں کے شاستروں میں نہ توریت میں اور نہ انجیل میں صرف یورپ کارواج ہے نہ معلوم کس بنا پر یہ رواج رائج ہوا اور جب سے یورپ میں یہ رواج چلا اس وقت مغربی قوموں میں زناکاری کی اس درجہ کثرت ہوئی کہ پچاس فیصد آبادی غیر ثابت النسب ہے اور جن قوموں نے تعدد ازدواج کو برا سمجھا ہے وہی قومیں اکثر زناکاری میں مبتلا ہیں۔ اسلام سے بیشتر دنیا کے ہر ملک اور ہر خطہ میں کثرت ازدواج کی رسم خوب زور شور سے رائج تھی اور بعض اوقات ایک ایک شخص سو عمر تک عورتوں سے شادیاں کرلیتا تھا اسلام آیا اور اس نے اصل تعداد کو جائز قرار دیا مگر اس کی ایک حد مقرر کردی اسلام نے تعدد ازدواج کو واجب اور لازم قرار نہیں دیا بلکہ بشرط عدل وانصاف اس کی اجازت دی کہ تم کو چار بیویوں کی حد تک نکاح کی اجازت ہے اور اس چار کی حد سے تجاوز کی اجازت نہیں اس لیے کہ نکاح سے مقصود عفت اور تحصین فرج ہے چار عورتوں میں جب ہر تین شب کے بعد ایک عورت کی طرف رجوع کرے گا تو اس کے حقوق زوجیت پر کوئی اثر نہیں پڑے گا شریعت اسلامیہ نے غایت درجہ اعتدال اور توسط کو ملحوظ رکھا کہ نہ تو جاہلیت کی طرح غیر محدود کثرت ازدواج کی اجازت دی کہ جس سے شہوت رانی کادروازہ کھل جائے اور نہ اتنی تنگی کی کہ ایک عورت سے زائد کی اجازت ہی نہ دی جائے بلکہ بین بین حالت کو برقرار رکھا کہ چار تک اجازت دی تاکہ نکاح کی غرض وغایت یعنی عفت اور حفاظت نظر اور تحصین فرج اور تناسل اور اولاد بسہولت حاصل ہوسکے اور زنا سے بالکلیہ محفوظ ہوجائے اس لیے کہ بعض قوی اور توانا اور تندرست اور فارغ البال اور خوش حال لوگوں کو ایک بیوی سے زیادہ کی ضرورت ہوتی ہے اور بوجہ قوت اور توانائی اور اوپر سے فارغ البال اور خوش حالی کی وجہ سے چار بیویوں کے بلاتکلف حقوق زوجیت ادا کرنے پر قادر ہوتے ہیں۔
 (بلکہ) ایسے قوی اور تواناجن کے پاس لاکھوں کی دولت بھی موجود ہے اگر وہ اپنے خاندان کی چار غریب عورتوں سے اس لیے نکاح کریں کہ ان کی تنگ دستی مبدل، بفراخی ہوجائے اور غربت کے گھرانہ سے نکل کر ایک راحت اور دولت کے گھر میں داخل ہوں اور اللہ کی نمعت کا شکر کریں تو امید ہے کہ ایسا نکاح اسلامی نقطہ نظر سے بلاشتبہ عبادت اور عین عبادت ہوگا اور قومی نقطہ نظر سے اعلی ترین قومی ہمدردی ہوگی جس دولت مند اور زمیندار اور سرمایہ دار کے خزانہ سے ہر مہینہ دس ہزار مزدوروں کو تنخواہیں ملتی ہوں اور دس ہزار خاندان اس کی اعانت اور امداد سے پرورش پاتے ہوں تو اگر اس کے خاندان کی چار عورتیں بھی اس کی حرم سرائے میں داخل ہوجائیں اور عیش وعشرت کے ساتھ ان کی عزت وناموس بھی محفوظ ہوجائے تو عقلا وشرعا اس میں کوئی خرابی نظر نہیں آتی بلکہ اگر کوئی بادشاہ یا صدر مملکت یا وزیر سلطنت یا کوئی صاحب ثروت ودولت بذریعہ اخبار یہ اعلان کرے کہ میں چار عورتوں سے نکاح کرنا چاہتا ہوں اور ہر عورت کو ایک ایک لاکھ مہردوں گا اور ایک ایک بنگلہ کاہر ایک کو مالک بنادوں گا جو عورت مجھ سے نکاح چاہے وہ میرے پاس درخواست بھیج دے۔
 (تو سب سے پہلے)۔ انہی بیگمات کی درخواستیں پہنچیں گی جو آج تعدد ازدواج کے مسئلہ پر شور برپا کررہی ہیں یہی بیگمات سب سے پہلے اپنے آپ کو اور اپنی بیٹیوں اور بھتیجیوں اور بھانجیوں کو لے کر امراء اور وزارء کے بنگلوں پر خود حاضر ہوجائیں گی اور اگر کوئی امیر اور وزیر ان کے قبول کرنے میں کچھ تامل کرے گا تو یہی بے گمات دل آویز طریقہ سے ان کو تعدد ازدواج کے فوائد اور منافع سمجھائیں گی۔
 ٢۔ نیز بسااوقات ایک عورت امراض کی وجہ سے یا حمل اور تولد النسل کی تکلیف میں مبتلا ہونے کی وجہ سے اس قابل نہیں رہتی کہ مرد اس سے منتفع ہوسکے تو ایسی صورت میں مرد کے زنا سے محفوظ رہنے کی عقلا اس سے بہتر کوئی صورت نہیں کہ اس کو دوسرے نکاح کی اجازت دی جائے۔
 حکایت۔ ایک بزرگ کی بیوی نابینا ہوگئی تو انہوں نے دوسرا نکاح کیا تاکہ یہ دوسری بیوی پہلی بیوی نابینا کی خدمت کرسکے اہل عقل فتوی دیں کہ اگر کسی کی پہلی بیوی معذور ہوجائے اور دوسرا نکاح اس لیے کرے تاکہ دوسری بیوی پہلی بیوی کی خدمت کرسکے اور اس کے بچوں کی تربیت کرسکے کیا یہ دوسرا نکاح عین عبادت اور عین مروت اور عین انسانیت نہ ہوگا۔
 ٣۔ نیز بسااوقات عورت امراض کی وجہ سے یا عقیم (بانجھ) ہونے کی وجہ سے توالدالنسل کے قابل نہیں رہتی اور مرد کو بقاء نسل کی طرف فطری رغبت ہے ایسی صورت میں عورت کو بے وجہ طلاق دے کر علیحدہ کرنا یا اس پر کوئی الزام لگا کر طلا دے دینا جیسا کہ دن رات یورپ میں ہوتا رہتا ہے یہ صورت بہتر ہے یا یہ صورت بہتر ہے کہ اس کی زوجیت اور اس کے حقوق کو محفوظ رکھ کر دوسرے نکاح کی اجازت دے دیں بتلاؤ کون سی صورت بہتر ہے اگر کسی قوم کو اپنی تعداد بڑھانی منظور ہو یا عام طور پر بنی نوع کی افزائش نسل مدنظر ہو تو سب سے بہتر یہی تدبیر ہوسکتی ہے کہ ایک مرد کئی شادیاں کرے تاکہ بہت سی اولاد پیدا ہو۔
 ٤۔ نیز عورتوں کی تعداد قدرتا اور عادۃ مردوں سے زیادہ ہے مرد بہ نسبت عورتوں کے پیدا کم ہوتے ہیں اور مرتے زیادہ ہیں لاکھوں مرد لڑائیوں میں مارے جاتے ہیں اور ہزاروں مرد جہازوں میں ڈوب جاتے ہیں اور ہزاروں کانوں میں دب کر اور تعمیرات میں بلندیوں سے گر کر مرجاتے ہیں اور عورتیں پیدا زیادہ ہوتی ہیں اور مرتی کم ہیں پس اگر ایک مردکو کئی شادیوں کی اجازت نہ دی جائے تو یہ فاضل عورتیں بالکل معطل اور بے کار رہیں کون ان کی معاش کا کفیل اور ذمہ دار بنے اور کس طرح عورتیں اپنے کو زنا سے محفوظ رکھیں پس تعدد ازدواج کا حکم بے بس کس عورتوں کاسہارا ہے اور ان کی عصمت اور ناموس کی حفاظت کا واحد ذریعہ ہے اور ان کی جان اور آبرو کانگہبان اور پاسبان ہے عورتوں پر اسلام کے اس احسان کا شکر واجب ہے کہ تم کوتکلیف سے بچایا اور راحت پہنچائی اور ٹھکانا دیا اور لوگوں کی تہمت اور بدگمانی سے تم کو محفوظ کردیا دنیا میں جب کبھی عظیم الشان لڑائیاں پیش آتی ہیں تو مرد ہی زیادہ مارے جاتے ہیں اور قوم میں بے کس عورتوں کی تعداد بڑھ جاتی ہے تو اس وقت ہمدرداں قوم کی نگاہیں اس اسلامی اصول کی طرف اٹھ جاتی ہیں ابھی تیس سال قبل کی بات ہے کہ جنگ عظیم کے بعد جرمنی اور دوسرے یورپی ممالک جن کے مذہب میں تعداد ازددواج جائز نہیں عورتوں کی بے کسی کو دیکھ کر اندر ہی اندر تعداد ازدواج کے جواز کا فتوی تیار کررہے تھے۔ جو لوگ تعدد ازدواج کو برا سمجھتے ہیں ہم ان سے یہ سوال کرتے ہیں کہ جب ملک میں عورتیں لاکھوں کی تعداد میں مردوں سے زیادہ ہوں تو ان کی فطری اور طبعی جذبات اور ان کی معاشی ضروریات کی تکمیل کے لیے آپ کے پاس کیا حل ہے اور آپ نے ان بے کس عورتوں کی مصیبت دور کرنے کے لیے کیا قانون بنایا ہے افسوس اور صد افسوس کہ اہل مغرب اسلام کے اس جائز تعدد پر عیش پسندی کا الزام لگائیں اور غیر محدود ناجائز تعلقات اور بلا نکاح کے لاتعداد آشنائی کوتہذیب اور تمدن سمجھیں زنا جو کہ تمام انبیاء اور مرسلین کی شریعتوں میں حرام اور تمام حکماء کی حکمتوں میں قبیح رہا مغرب کے مدعیان تہذیب کو اس کا قبح نظر نہیں آتا اور تعدد ازدواج کہ جو تمام انبیاء ومرسلین اور حکماء اور عقلاء کے نزدیک جائز اور مستحسن رہا وہ ان کو قبیح نظر آتا ہے ان مہذب قوموں کے نزدیک تعدد ازدواج تو جرم ہے اور زنا اور بدکاری جرم نہیں۔

 ٥۔ عورتیں۔ مرد سے عقل میں بھی نصف ہیں اور دین میں بھی نصف ہیں جس کا حاصل یہ نکلا کہ ایک عورت ایک مرد کاربع یعنی چوتھائی ہے اور ظاہر ہے کہ چار ربع مل کر ایک بنتے ہیں معلوم ہوا کہ چار عورتیں ایک مرد کے برابر ہیں اس لیے شریعت نے ایک مرد کو چار عورتوں سے نکاح کی اجازت دی۔(مأخوذ تفسیر معارف القرآن لادریس کاندھلوی سورہ النساء)
مکمل تحریر >>

جمعرات، 18 فروری، 2016

کافر قیدیوں کو غلام باندی بنانے میں حکمت

بسم اللہ الرحمن الرحیم
کافر قیدیوں کو غلام باندی بنانے میں حکمت :
جب مسلمان جہاد کرتے تھے تو جن کافروں کو قید کرلیا جاتا تھا ان میں مرد بھی ہوتے تھے اور عورتیں بھی۔ امیر المؤمنین کو اختیار تھا کہ ان کو جہاد کرنے والوں میں تقسیم کردے جب ان مجاہدین میں قیدی تقسیم ہوجاتے تھے تو ان کی ملکیت میں آ جاتے تھے اس لیے ان کا بیچنا، فروخت کرنا جائز تھا اور یہ غلامی کفر کی سزا ہے اور اس میں ان غلاموں کا یہ نفع ہے کہ دار الاسلام میں رہیں گے تو مسلمانوں کے اسلامی معاشرہ سے مانوس ہوں گے اذانیں سنیں گے، نمازیں دیکھیں گے، اور اسلام قبول کریں گے، اور آخرت کے دائمی عذاب سے بچ جائیں گے اور حکومت اسلامیہ کا یہ نفع ہے کہ جب ان کو مجاہدین میں تقسیم کردیا تو ان کی قوت بھی ٹوٹ گئی جس سے بغاوت کا اندیشہ تھا اور بیت المال پر ان قیدیوں کو کھلانے پلانے کا بار بھی نہ پڑا، اگر ان کو جیل میں رکھتے تو بغاوت کا بھی خطرہ تھا۔ آپس میں مشورہ کرتے رہتے اور دار الحرب سے تعلقات پید کرکے دار الاسلام میں فساد کا باعث بن جاتے اور بیت المال کو روزانہ ان لوگوں پر بھاری رقم خرچ کرنی پڑتی۔ دوسری طرف مجاہدین کو نفع ہوا ان کو کام کاج کرنے والے افراد مل گئے اور چونکہ یہ لوگ اپنے مالکوں کا کام کریں گے اس لیے ان کو کھلانا پلانا بھی ناگوار نہ ہوگا۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حکم فرمایا کہ جو غلام تمہارے احوال کے مناسب اور موافق ہو اسے اسی میں سے کھلاؤ جس میں سے تم کھاتے ہو اور اسی میں سے پہناؤ جس میں سے تم پہنتے ہو اور جو تمہارے احوال کے مناسب نہ ہو اس کو بیچ دو اور اللہ کی مخلوق کو عذاب نہ دو، (رواہ احمد و ابوداؤد کمافی المشکوٰۃ صفحہ ٢٩٢)
مطلب یہ ہے کہ جب تمہارے احوال کے موافق اور مناسب نہ ہوگا تو خواہ مخواہ اس کی مار پیٹ کی طرف بھی طبیعت چلے گی اور کھلانے پلانے میں بھی کوتاہی ہوگی اسے بیچ دو گے تو انشاء اللہ تعالیٰ دوسری جگہ اس کے حال کے مناسب مل جائے گی جب غلام اسی کھانے میں سے کھائے گا جو گھر والوں کے لیے پکایا گیا اور اسی کپڑے میں سے پہنے گا جو دوسرے گھر والے پہنتے ہیں اور اس کے علاوہ روا داری، دلداری اور حسن معاشرت کے مظاہرے اس کے سامنے آئیں گے تو حسن و خوبی کے برتاؤ کی وجہ سے وہ اپنے آپ کو اجنبی محسوس نہ کرے گا اور رفتہ رفتہ اسلام قبول کرنے کے قریب تر آ جائے گا۔
اسلام کی تاریخ میں بڑے بڑے محدثین ایسے حضرات گزرے ہیں جو غلام تھے۔ یا باندیوں کی اولاد تھے۔ حدیث کی کتابوں میں غلاموں کے ساتھ حسن معاشرت کے ساتھ گزارہ کرنے اور ان کے حقوق کی نگہداشت کرنے کے بارے میں مفصل ہدایات موجود ہیں۔ آنحضرت سرور عالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے مرض الوفات میں بار بار یہ فرمایا الصَّلٰوۃُ وَمَا مَلَکَتْ اَیْمَانُکُمْ (کہ تم نماز کا دھیان رکھنا اور جو تمہارے غلام اور باندیاں ہو ان کے حقوق کی نگہداشت کرنا) (رواہ احمد صفحہ ٨١٧: ج ٣) یہ ہے وہ غلامی جسے یورپ کے متعصب جاہلوں نے اعتراضات کا نشانہ بنا رکھا ہے۔


مکمل تحریر >>

اسلام میں تعددِ ازواج کا حکم عین حکمت پر مبنی ہے

بسم اللہ الرحمن الرحیم
اسلام میں تعددِ ازواج کا حکم عین حکمت پر مبنی ہے

وَاِنْ خِفْتُمْ اَلَّا تُقْسِطُوْا فِي الْيَتٰمٰى فَانْكِحُوْا مَا طَابَ لَكُمْ مِّنَ النِّسَاءِ مَثْنٰى وَثُلٰثَ وَرُبٰعَ ۚ فَاِنْ خِفْتُمْ اَلَّا تَعْدِلُوْا فَوَاحِدَةً اَوْ مَا مَلَكَتْ اَيْمَانُكُمْ ۭ ذٰلِكَ اَدْنٰٓى اَلَّا تَعُوْلُوْا
ترجمہ:اور اگر تم کو ڈر ہو کہ یتیموں کے بارے میں انصاف نہ کرسکو گے تو ان عورتوں سے نکاح کرلو جو عورتیں تم کو پسند ہوں دو دو، تین تین، چار چار سو اگر تم کو ڈر ہو کہ انصا ف نہ کرسکو گے تو ایک ہی عورت سے نکاح کرلو، یا ان لونڈیوں پر بس کرو جو تمہاری ملکیت ہوں۔ یہ اس سے قریب تر ہے کہ تم زیادتی نہ کرو(سورہ النساء: آیت۳)

چار عورتوں سے نکاح کرنے کی اجازت اور عدل کرنے کا حکم :
اور ساتھ ہی ساتھ عورتوں کی تعداد کے بارے میں بھی ارشاد فرمایا کہ جو عورتیں پسند ہوں ان میں سے دو دو، تین تین، چار چار سے نکاح کرسکتے ہو اور اگر یہ ڈر ہو کہ ان میں انصاف نہ کرسکو گے تو دوسری عورتوں سے نکاح کرلو جو تمہیں پسند ہوں۔
اس اجمال کی تفصیل یہ ہے کہ اول تو ہر شخص کو بیک وقت دو یا تین یا چار عورتوں سے نکاح کرنے کی اجازت دے دی اور فرمایا کہ جو تمہیں اچھی لگیں ان سے نکاح کرلو ایک سے زائد نکاح کرنا جائز ہے۔ فرض اور واجب نہیں ہے اور جائز بھی اس شرط پر ہے کہ جتنی بیویاں ہوں ان سب کے درمیان عدل و انصاف رکھے۔ قلبی تعلق پر تو مواخذہ (گرفت) نہیں ہے کہ یہ اختیاری چیز نہیں۔ البتہ اختیاری چیز میں عدل نہ کیا تو گرفت ہے۔ حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ جس شخص کے پاس دو عورتیں ہوں اور وہ ان دونوں عورتوں کے درمیان عدل یعنی برابری نہ کرتا ہو تو وہ قیامت کے دن اس حال میں آئے گا کہ اس کا ایک پہلو گرا ہوا ہوگا، جتنی راتیں ایک کے پاس رہے اتنی ہی راتیں دوسری کے پاس رہے تقسیم جس طرح چاہے کرے اس کے اختیار میں ہے۔ (مشکوٰۃ المصابیح : صفحہ ٢٧٩: از ترمذی وغیرہ)
بہت سے لوگ پیسہ زیادہ ہونے کی وجہ سے یا خواہ مخواہ شوق میں آ کر پہلی بیوی پرانی ہوجانے کی وجہ سے یا نئی بیوی کے مالدار ہونے کی وجہ سے دوسری شادی کرلیتے ہیں۔ لیکن پھر برابری نہیں کرتے اور کسی ایک کے ساتھ ظلم و زیادتی بھی کرتے رہتے ہیں یہ شرعاً حرام ہے۔ اگر کسی کو برابری پر قدرت نہ ہو تو ایک ہی بیوی رکھے تاکہ ظلم و زیادتی سے محفوظ رہے۔
فائدہ : شریعت اسلامیہ میں بیک وقت صرف چار تک بیویاں رکھنے کی اجازت ہے مگر مذکورہ بالا شرط کے ساتھ مشروط ہے۔ دوسری قوموں میں اس کی گنجائش نہیں ہے۔ لیکن اس کے بدلے میں ان کے یہاں یہ جائز ہے کہ بہت سی دوستانیاں (گرل فرینڈز) رکھ لے۔ زنا کاری کرنا ان کے نزدیک کچھ عیب کی بات نہیں ہے البتہ نکاح کر کے ایک سے زیادہ بیویاں رکھنا اور حلال طریقہ سے زندگی گزارنا ان کے نزدیک عیب ہے۔ اسلام پر جو بعض جاہلوں کے اعتراضات ہیں ان میں سے ایک یہ اعتراض بھی ہے کہ اسلام میں تعدد ازواج کی اجازت ہے۔ یہ لوگ یہ نہیں سمجھتے کہ اول تو چار تک کی اجازت ہے واجب نہیں۔ دوسرے دنیاوی احوال کے اعتبار سے اس اجازت کی ضرورت ہے اول تو اس میں نسل بڑھانے کا فائدہ ہے اور دوسرا عظیم فائدہ یہ ہے کہ جب کسی وجہ سے مردوں کی قلت ہوجائے (جیسا کہ جہاد کے مواقع میں مرد شہید ہوجاتے ہیں) تو عورتیں بیوہ ہوجائیں۔ تحفظ آبرو کے ساتھ ان کے اخراجات کا انتظام ہوجائے۔ پھر جب عورتوں کی کثرت ہو اور مردوں کی کمی ہو (جیسا کہ اس کا دور شروع ہوچکا ہے) تو عورتوں کی عفت و عصمت اور شریفانہ معیشت کا انتظام اسی میں ہے کہ مرد ایک سے زیادہ نکاح کریں۔ جو لوگ گہرائیوں میں نہیں جاتے۔ حکمتوں کو نہیں سمجھتے انہوں نے اپنے ذمہ صرف اعتراض کرنا ہی لے رکھا ہے جب اجازت اور اباحت کو عدل و انصاف کے ساتھ مشروط و مقید کردیا گیا تو پھر کسی عقلمند کے لیے کسی طرح بھی اعتراض کی گنجائش نہیں رہتی۔
پھر آیت کے خاتمے پر فرمایا : (ذٰلِکَ اَدْنآی اَلَّا تَعُوْلُوْا) (یہ اس سے قریب تر ہے کہ تم زیادتی نہ کرو) یعنی نکاح کے بارے میں جو تفصیل اوپر بیان کی گئی ہے اس کے مطابق عمل کرو گے تو ظلم و زیادتی سے محفوظ رہ سکتے ہو مذکورہ ہدایت پر عمل کرنا ظلم سے بچانے کے لیے بہت زیادہ قریب تر ہے۔
فائدہ : بیک وقت چار عورتوں تک سے نکاح کرنے کی اجازت ہے لیکن اس میں شرطیں ہیں ہر عورت سے نکاح نہیں ہو سکتا، مثلاً جو عورت کسی مرد کی عدت میں ہو اس سے نکاح نہیں ہو سکتا، دو بہنیں ایک مرد کے نکاح میں جمع نہیں ہو سکتیں اور جن عورتوں سے ہمیشہ کے لیے نکاح حرام ہے ان سے کبھی نکاح نہیں ہو سکتا۔ جس کی تفصیل اس سورت کے چوتھے رکوع میں آئے گی انشاء اللہ تعالیٰ۔ اگر کوئی شخص بیک وقت چار عورتیں نکاح میں ہوتے ہوئے پانچویں عورت سے نکاح کرے گا تو یہ نکاح شرعی نہ ہوگا اور یہ عورت اس کی شرعی بیوی نہ بن سکے گی زمانہ جاہلیت میں عرب کے لوگ بغیر کسی قانون کے بہت سی عورتوں سے نکاح کرلیا کرتے تھے۔ اسلام میں صرف چار تک کی اجازت دی گئی اور عدل و انصاف کی قید لگا دی گئی۔ غیلان بن سلمہ ثقفی (رض) نے جب اسلام قبول کیا تو ان کے پاس دس عورتیں تھیں۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ چار کو رکھ لو اور باقی کو چھوڑ دو۔ (رواہ ابن ماجہ فی کتاب الطلاق)


مکمل تحریر >>