Pages

منگل، 18 اگست، 2015

اسلام اور آزاد خیالی مکمل

اسلام ................. اور آزاد خیالی
ایک مباحثہ کے دوران میرے ایک رفیق نے کہا کہ تم آزاد خیال نہیں ہو......
میں: وہ کیسے؟
وہ:کیا تم ایک خدا کے وجود پر عقیدہ رکھتے ہو؟
میں: ہاں! یہ میرا ایمان ہے۔
وہ: اور پھر اس کے لئے نمازیں بھی پڑھتے ہو اور روزے بھی رکھتے ہو؟
میں: جی ہاں۔
وہ: تو پھر آپ آزاد خیال (Free Thinker) نہیں ہیں۔
میں: آخر یہ کیوں؟
وہ: آپ ایک نا معقول اور خرافات چیز پر عقیدہ رکھتے ہیں جس کا کوئی وجود نہیں ہے۔
میں: آپ اور آپ کے ہم خیال کس چیز پر عقیدہ رکھتے ہیں۔ آپ کے خیال میں اس کائنات کا اور زندگی کا خالق کون ہے؟
وہ: فطرت(Nature)
میں: آخر یہ فطرت کیا چیز؟
وہ: فطرت ایک لا محدود مخفی طاقت ہے۔ البتہ حواسِ خمسہ انسایہ کے لئے یہ ممکن ہے کہ اس کے مظاہر و آثار کا ادراک کرسکیں۔
آخر میں مَیں نے کہا کہ میں سمجھ گیا۔ آپ اپنے اس بیان کے ذریعہ ایک نامعلوم مخفی،قادر مطلق پر عقیدے سے ہٹا کر ایک نامعلوم قوت پر ایمان لانے کی دعوت دے رہے ہیں، لیکن سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر میں اپنے خدا کا انکار کیوں کروں؟ اسی طرح کے ایک دوسرے نامعلوم القوۃ خدا بلکہ جھوٹے خدا کی خاطر۔ آپ مجھ سے میرا وہ خدا کیوں چھیننا چاہتے ہیں جس کی عبدیت میں مجھے امن، سکون اور سلامتی و ایمان جیسی لازوال نعمتیں ملتی ہیں۔ اور اس کے بدلے میں مجھے ایسا خدا دینا چاہتے ہیں جو نہ تو میری کسی بات کا جواب دے سکتا ہے اور نہ امن و سکون فراہم کرسکتا ہے۔
            مختصراً یہ ان تمام ترقی پسندوں کاعقیدہ ہے، جو آزادئ خیال کی گفتگو کرتے ہیں۔ ان کے نزدیک ، آزادئ خیال، ایک خدا کے انکار کے مترادف ایک لفظ ہے لیکن کسی صورت میں بھی اسے آزادئ خیال نہیں کہا جاسکتا بلکہ یہ تو الحاد پرستی ہے۔ جس کی بیناد پر عمارت الحاد کی تعمیر کرتے ہوئے وہ لوگ اسلام پر الزام تراشی کرتے ہیں، حالانکہ انکارِ خدا کے معنی میں آزاد خیالی کو اسلام سختی سے منع کرتا ہے کیوں کہ اسلام الحاد کا دشمن ہے۔ لیکن سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا آزاد خیالی اور الحاد دونوں ہم معنی لفظ ہیں اور ایک ہی چیز ہیں اور کیا الحاد درحقیقت آزاد خیالی کی پہلی شرط ہے۔ معاملہ اصلاً یوں ہے کہ مغرب کے آزاد خیالوں کی تاریخ سے غلط طور پر متاثر ہو کر یہ لوگ اس حقیقت کی طرف نظریں دوڑاتے ہیں جب کہ کچھ مقامی اسباب و وجوہ کی بنا پر الحاد کا پروپگنڈہ یورپ میں ہوا تھا لیکن اس کا مطلب یہ تو نہیں کہ یہی تاریخ دینا میں ہر کہیں دہرائی جائے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ مسیحیت کا وہ تصور جو یوروپ میں اہل کلیسا نے پیش کیا تھا اور اہلِ علم کے ساتھ جو انسانیت سوز برتاؤ انہوں نے کیا تھا مثلاً علم و سائنس کو دیس نکالا دینا، اہل علم اور سائنسدانوں کو طرح طرح کی سزائیں دینا، اوہام و خرافات،جھوٹ اور  لغو باتوں کو کلامِ الٰہی کہہ کر عوام کو اس پر عمل کی دعوت دینا وغیرہ نے یوروپ میں آزاد خیالوں کے لئے الحاد کا راستہ ہموار کیا تھا، ایسی صورت میں یوروپ کے دانشوروں کے لئے ضروری ہوگیا تھا کہ دو راستوں میں سے ایک کا انتخاب نہایت صفائی سے کریں، یا تو فطری طور پر ایک خدا پر عقیدہ رکھیں یا سائنس کے علمی و عملی تجربات و مشاہدات پر ایمان لے آئیں۔
یوروپ کے دانشوروں نے فطرت پرستی کے نظریہ میں ایک طرح کی نجات محسوس کی تھی جس کے ذریعہ مذکورہ بالا فریب کے جال سے بچ سکتے تھے۔ اس لئے انہوں نے کلیسا سے صاف صاف کہہ دیا کہ "تم اپنے اس خدا کو لے جاؤ جس کے نام پر تم ہمیں غلام بنائے ہوئے ہو، گران بار ٹیکسوں کے بوجھ تلے ہمیں دبائے ہوئے ہو۔ تمہارے ان خداؤن پر ایمان لانے کا نتیجہ یہ ہوگا کہ ہم زاہد و درویش ہوجائیں گے، تارک الدنیا راہب ہوجائیں گے اس لئے ہم ایک نئے خدا پر ایمان لارہے ہیں، جس کے اندر معبودِ اول کی اکثر خوبیان موجود ہوں گی لیکن اس کے لئے کوئی گرجا(church) نہ ہوگا جو لوگوں کو غلام بنائے اور نہ ہی اس نئے دین کی طرف لوگوں پر اخلاقی، فکری اور مادی قسم کی کوئی پابندی ہوگی، جیسا کہ تمہارے دین میں ہے۔ بلکہ ہم اس کی وسعتوں میں ہر طرح کی قید سے آزاد ہوں گے۔
مذکورہ بالا بیان کی روشنی میں یہ بات واضح ہوگئی کہ اسلام میں اس طرح کی کوئی ایسی چیز نہیں پائی جاتی ہے جو الحاد کی طرف رہنمائی کرتی ہو۔ اور نہ ہی عقیدہ کو سمجھنے کے سلسلہ میں کوئی مشکل چیز در پیش ہے جو ذہن کو پریشان کرے۔ مثلاً خدا ایک ہے وہی ساری کائنات کا خالق ہے، اور پھر ایک دین اسی کی طرف لوٹ کر جانا ہے، وہ خدا اکیلاہے، اس کا کوئی ساجھی و شریک نہیں ہے، اس کے فیصلوں پر کوئی مواخذہ کرنے والا نہیں ہے۔" یہ اتنا واضح اور سادہ مفہوم ہے کہ کوئی بھی شخص حتیٰ کہ نیچری اور ملحد بھی بڑی مشکل سے اس کا انکار تو درکنار اس میں شبہ بھی کرسکتا ہے۔
اسلام میں اس طرح کے مذہبی لوگ نہیں ہیں جیسے یوروپ میں پوپ و پادری ہوتے ہیں، بلکہ یہاں مذہب ساری نوع انسانی کی مشترکہ میراث ہے۔ اپنی فطری، ذہنی اور روحانی صلاحیتوں اور ضرورت کے مطابق ہر شخص اس چشمہ سے سیراب ہو سکتا ہے۔ اسلام میں سب مسلمان برابر ہیں۔ اس میں زندگی کی بنیادی ضرورتوں اور معیار کارکردگی کی روشنی میں ہر شخص کے درجے متعین ہیں۔ا لبتہ اللہ کی نظروں میں سب سے معزز و محترم وہ لوگ ہیں جو متقی و پرہیز گار ہیں، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ انجینئر ہے یا مدرس، کوئی فنکار ہے یا کارخانہ کا مزدور، کیوں کہ مذہب صنعتوں اور پیشوں کی طرح کوئی پیشہ نہیں ہے کہ لوگ اپنے پیشوں کی طرف منسوب ہوتے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ اسلام میں پیشہ ور پادری نہیں ہوتے ہیں۔ چنانچہ عبادات پنجگانہ وغیرہ کی کاروائیاں پیشہ ور مذہبی شخصیتوں کی مداخلت کے بغیر بحسن و خوبی انجام پذیر ہوتی ہیں۔
البتہ یہ ضروری ہے کہ کچھ علوم فقہیہ اور مسائل شرعیہ کے ماہر ہوں کہ یہی علوم امور عامہ کی بنیاد ہیں تاکہ معاملات کے فیصلوں میں آسانی ہو تاہم ان اسلامی  علوم کے ماہرین اور فقہاء کا مرتبہ دنیا کے دوسرے ملکوں ہی کی طرح ہوگا۔ انہیں اپنے علمی اعزاز کی بنا پر عوام پر فوقیت اور برتری حاصل نہ ہوگی اور نہ ہی درجہ واری اعتبار سے کوئی امتیاز حاصل ہوگا۔ بلکہ ان کی حیثیت صرف ایک قانونی مشیر کی ہوگی (جیسا کہ سلیمان بن عبد الملک کے دورِ حکومت میں عمر بن عبد العزیزؒ خلیفہ مذکور کے مشیر کی حیثیت سے کام کرتے تھے) اور اگر کچھ لوگ ایسے ہوں بھی جو اپنے آپ کو علامہ دہر اور مفتی اعظم کہتے ہوں، تو اپنے منھ میاں مٹھو  بناکریں۔ بہر حال انہیں عوام پر کسی قسم کا کوئی غلبہ حاصل نہ ہوگا۔ صرف قانونی ہی دائرہ تک ان کی سرگرمیاں محدود ہوں گی امور عامہ میں انہیں دخل اندازی کا کچھ بھی اختیار نہ ہوگا۔ مثلاً
"جامعہ ازہر مصر" ایک دینی درسگاہ ہے لیکن اسے قطعی یہ اختیار نہیں کہ اہل علم و فضل کے جلانے یا انہیں آزمائشوں میں مبتلا کئے جانے کا کوئی حکم دے ہاں اسے صرف اتنی گنجائش ہے کہ کسی شخص کے اپنے ذاتی ںظریہ مذہب اور فہم دین پر تنقید کرسکتی ہے یعنی تفہیم و تنقیح میں جامعہ ازہر آزاد ہے یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے علمائے ازہر کے مذہبی خیالات پر تنقید و تبصرہ کرنے میں عام لوگ بھی آزاد ہیں کیوں کہ اسلام کسی ایک شخص یا جماعت کی جاگیر نہیں ہے اس لئے اپنی گزر اوقات کے پیشوں کا لحاظ کئے بغیر وہ سبھی لوگ مذہبیات کے ماہر سمجھے جائیں گے جو مذہب کا گہرا مطالعہ رکھتے ہیں اور اپنی زندگیوں میں اس کا عملی مظاہرہ بھی کرتے ہیں۔
اس موقع پر ایک بات کی وضاحت کردینا بہت ضروری ہے کہ جب حکومت اسلامیہ کا قیام عمل میں آئے گا تو یہ ضروری نہیں ہوگا کہ علماء ہی گورنر،منسٹر اور شعبوں کے صدر ہوں۔ اگر کوئی تبدیلی ہوگی بھی تو صرف یہ کہ نظام حکومت کی بنیاد شریعت اسلامیہ پر رکھی جائے گی۔ دوسرے لفظوں میں یوں کہہ لیجئے کہ خدا کی زمین پر خدا کا قانون چلے گا، ورنہ بقیہ امور بدستور ہوں گے وہ اس طور پر کہ شعبہ انجینئرنگ کا صدر انجینئر ہوگا، اسپتالوں کے ذمہ دار ڈاکٹر ہوں گے اور معاشی امور کی رہبری ماہرین معاشیات ہی کے ذمہ ہوگی۔ اس طرح تمام شعبہ جات زندگی کے اندر اسلامی روح کار فرما ہوگی۔
تاریخ شاہد ہے کہ نہ تو اسلامی عقائد اور نہ ہی اسلامی حکومت نے اہلِ علم اور سائنسدانوں کے تجربات و مشاہدات کے راستہ میں کبھی بھی کسی قسم کی رکاوٹ پیدا کی ہے۔ اسلامی عظمت و اقتدار کے دور میں ہمارے کانوں نے ایسی کوئی خبر نہیں سنی کہ تجربہ، کسی نئی تحقیق و جستجو، کسی نئے نظریہ و خیال پر کوئی سائنسداں آگ میں جلایا گیا ہو۔ حقیقی اور سچی سائنس ایک مسلمان کے اس عقیدہ سے متصادم نہیں ہوتی ہے کہ اللہ ہی وہ ہے جو ہر چیز کا پیدا کرنے والا ہے۔ اسلام تو خود ہی بنی نوع انسان کو دعوت دیتا ہے کہ زمین و آسمان کا مشاہدہ و مطالعہ کریں ، ان کی پیدائش پر غور و فکر کریں تاکہ اس کے ذریعہ خدا کی معرفت حاصل ہوسکے۔ صحیح اور سچی سائنس اور تلاش و جستجو کے راستے یوروپ کے بہت ملحد سائنسدانوں کو خدا  تک رسائی نصیب ہوئی ہے۔
اسلام میں اس طرح کی کوئی چیز نہیں ہے جو عوام کو الحاد اور بے دینی کی ترغیب دیتی ہو اور یہ جو معدودے چند ملحد اور منکر مشرق ہی میں پائے جاتے ہیں، وہ اپنے استعمار پسند آقاؤں کی خواہشوں کے اندھے غلام ہیں، ان مذاہب بیزاروں کی خواہش ہے کہ انہیں عقائد و عبادات پر حملہ کرنے کی کھلی چھوٹ دے دی جائے تاکہ وہ لوگوں کو ترک مذہب پر آمادہ کرسکیں لیکن سوال پیدا ہوتا ہے کہ آکر وہ ایسا کیوں چاہتے ہیں؟
معاملہ درحقیقت یوں ہے کہ مغربی ممالک میں لوگ اپنے ذہنوں کو اوہام و خرافات سے آزاد کرنے اور عوام کو ظلم و تشدد سے نجات دلانے کے نام پر مذہب پر حملہ کرنے لگتے ہیں۔ مگر جب اسلامی شریعت انہیں وہ تمام آزادیاں دے رہی ہے جس کی انہیں ضرورت ہے تو پھر آخر کیوں مذہب پر رکیک حملے کرتے ہیں؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ نام نہاد آزاد خیال (Liberals) آزاد خیالی میں ذرا بھی دلچسپی نہیں لیتے بلکہ اس سے زیادہ تو وہ اخلاقی گرواٹ،بے حیائی پھیلانے اور وحشیانہ جنسے بے راہ روی عام کرنے میں دلچسپی لیتے ہیں آزاد خیالی کا نعرہ دراصل ایک نقاب ہے جس میں وہ اپنی جنسی اور دیگر پست خواہشات کو ڈھکے ہوتے ہیں۔ بقول علامہ اقبالؒ
براہیمی    نظر     پیدا      مگر     مشکل     سے     ہوتی     ہے
ہوس چھپ چھپ کے سینوں میں بنالیتی ہے تصویریں
یہ نعرہ اس سے زیادہ کچھ نہیں کہ مذہب و اخلاق کے خلاف ان کی بیہودہ جنگ کا جھنڈا ہے۔ وہ لوگ اسلام کے مخالف اس لئے نہیں ہیں کہ اسلام آزاد خیالی کا دشمن ہے بلکہ وہ اس لئے اس کے منکر ہیں کہ اسلام سطحی اور گندی خواہشات کے غلبہ و تسلط سے انسانیت کو نجات دینے کے لئے ان سے نبرد آزما ہے۔
آزاد خیالی کے علمبردار، اسلام پر الزام لگاتے ہیں کہ اسلام کا نظامِ حکومت خود مختارانہ ہے، کیوں کہ یہاں حکومت ایک وسیع اقتدار کی مالک ہوتی ہے اور یہ کتنی بری بات ہے کہ مذہب کے نام پر لامحدود طاقت و اختیارات سے کوئی جماعت فائدہ اٹھائے۔ ظاہر ہے کہ مذہب ایک مقدس چیز ہے۔ لوگوں کے دلوں پر اس کا غلبہ ہے۔ لوگوں کے لئے اس میں بڑی کشش ہے، اس لئے آنکھیں بند کر کے اس نظام حکومت کے ظلم و ستم کو لوگ برداشت کر لیتے ہیں۔ انہیں لوگوں کا خیلا ہے کہ یہ وسیع و لامحدود اختیارات خود مختاری کی طرف رہنمائی کرتے ہیں ایسی صورت میں عوام ایک غلام کی طرح آزاد خیالی سے محروم ہو جاتے ہیں، ہمیشہ ہمیش کے لئے آزاد خیالی کا گلا گھٹ جاتا ہے۔ پھر کوئی شخص حکمراں طبقے کے خلاف آواز اٹھانے کی جرأت نہیں کرتا ہے اور اگر کبھی ایسا کوئی کرلیتا ہے تو اس پر خدا اور مذہب کے خلاف بغاوت کا الزام لگتا ہے۔
مذکورہ بالا غلط اور جھوٹے الزامات کی نہایت مدلل اور خوبصور تردید خود قرآن حکیم اور اقوالِ صحابہؓ میں موجود ہے۔ اللہ رب العزت ارشاد فرماتے ہیں:
وَأَمْرُهُمْ شُورَى بَيْنَهُمْ
ترجمہ: وہ لوگ اپنے معاملات آپس کے مشورے سے چلاتے ہیں۔(سورہ ۴۲ آیت ۳۸)
ایک دوسری آیت میں وَإِذَا حَكَمْتُمْ بَيْنَ النَّاسِ أَنْ تَحْكُمُوا بِالْعَدْلِ  (سورہ ۴ آیت ۵۸)
ترجمہ: اور جو لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو تو عدل کے ساتھ کرو۔
خلیفہ اول ابو بکر صدیقؓ فرماتے ہیں اگر میں اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی نافرمانی کرنے لگوں تو تمہارے اوپر میری کوئی اطاعت نہیں ہے ۔ اسی طرح فاروقِ اعظمؓ فرماتے ہیں: اگر میرے اندر تم کوئی کجی دیکھو تو اسے درست کردو، اسی موقعہ پر ایک مسلمان نے کھڑے ہو کر فوراً کہا "بخدا اگر ہمیں ذرا بھی کوئی کجی محسوس ہوئی تو ہم اسے تلوار کی دھار سے درست کردیں گے۔"
یہ صحیح ہے کہ مذہب کے نام پر ایک عرصہ تک دنیا میں ظلم و ستم کی حکمرانی رہی اور یہ بھی سچ ہے کہ اب تک بعض ملکوں میں مذہب ہی کے نام پر ظلم وستم کا دور دورہ ہے۔ لیکن سوال اٹھتا ہے کہ کیا مذہب ہی تنہا وہ نقاب ہے جسے ظالم حکمراں استعمال کرتے رہے ہیں۔ کیا ہٹلر نے اسی مذہب کے نام پر حکومت کی تھی؟ یا اسٹالن جس کے بارے میں روسی صحافیوں اور دانشوروں کا متفقہ فیصلہ ہے کہ وہ بڑا سخت گیر،ظالم، مطلق العنان تھا، اس نے روس پر ایک پولیس کی طرح حکومت کی ہے اس نے اپنی حکومت و اقتدار کی خاطر مذہب ہی کا نعرہ بلند کیا تھا؟اور کرتہے ہیں، یہ تو وہ لوگ ہیں جو مذہب کے نام پر چراغ پا ہوجاتے ہیں اور مذہب کو برا بھلا کہتے ہیں۔ اس لئے اب یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہوگئی ہے کہ بیسویں صدی جس نے مذہب سے نجات پانے کے لئے کیا کیا نہ جتن کئے اور اس کے لئے کیا کیا قربانیاں نہ دیں، مگر اسے وحشیانہ مطلق العنانی کا وہ دور دیکھنا پڑا  جس میں مذہب سے زیادہ پر کشش اور مقدس نام کے سہارے بنی نوع انسان کو زبردست فریب دیا گیا۔
کوئی بھی شخص مطلق العنانی (Dictatorship) کی تعریف نہیں کرسکتا اور نہ ہی کوئی آزاد ذہن و دماغ اور بیدار قلب و ضمیر والا انسان اسے تسلیم ہی کرسکتا ہے۔ اسی طرح فطرت و طبیعت کی سلامت روی کا تقاضا تو یہ ہے کہ خواہشات نفسانی کی اتباع کئے بغیر حق خالص کا اقرار کرلیا جائے۔ لیکن اس کے برعکس دیکھنے میں یہ آیا کہ ہر خوبصورت اور محترم اصول (principle) کو غلط طور پر استعمال کیا گیا ہےا ور اپنے ذاتی اغراض و مفاد کو چھپانے کے لئے اسے بہترین پردہ بنایا گیا ہے۔ میرے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ انقلاب فرانس (French Revolution) کے نشہ کے دوران اسی آزاد خیالی (Liberalism) کے نام پر انتہائی بد ترین اور خبیث قسم کے جرائم کا ارتکاب کیا گیا۔ تو کیا اس کی روشنی میں ہم جذبۂ استقلال و حریت کو لغو قرار دے دیں؟ اور اسی طرح سینکڑوں بے قصور اور معصوم انسانوں کو دستور کے نام پر قید و بند کی صوعبتیں جھیلنا پڑیں،سزائیں دی گئیں، یہاں تک کہ رسم دار ورسن بھی پوری کی گئی، تو کیا اس وجہ سے ہم دستور کو ایک قلم منسوخ کردیں ، یا کچھ ملکوں میں مذہب کے نام پر اب بھی ظلم وستم کی حکمرانی ہے۔ کیا یہ مناسب بات کوگی کہ اس سے نجات پانے کے لئے ہم مذہب ہی سے محروم ہوجائیں؟ ہاں ہم ایسے مذہب کو ضرور دیس نکالا دیں گے اور اسے ممنوع قرار دیں گے جو اپنے نصاب تعلیم، نظریاتِ زندگی، نیز بذات خود ظلم و تشدد اور ناانصافی کی تبلیغ و اشاعت کرتا ہوگا۔ لیکن کیا یہ مثال اسلام پر بھی صادق آتی ہے؟ جو کہ عدل و انصاف کا اعلیٰ نمونہ ہے۔ اور خاص بات تو یہ ہے کہ اسلام کا عدل و مساوات صرف مسلمانوں ہی کے لئے مخصوص نہیں ہے بلکہ نازک سے نازک حالات میں بھی غیر مسلموں،دشمنوں،جنگی حملہ آوروں کے لئے بھی عام ہے۔
آئیے، ذرا سوچیں کہ آخر اس کا علاج کیا ہوسکتا ہے؟ تو حالات و مشاہدات سے واضح ہوتا ہے کہ ظلم و ستم،سرکشی و بغاوت سے نپٹنے کے لئے صرف ایک طریقہ ہے، وہ یہ کہ اہل ایمان کا ہر اول دستہ تیار کیا جائے جو اللہ وحدہ لا شریک لہ پر پختہ عقیدہ رکھتا ہو اور اس آزادی کا احترام کرتا ہو جس کی دعوت مذہب نے دی ہے اور جس آزادی کی حفاظت کی ذمہ داری خود مذہب کے اوپر ہے۔ یہ ایمانی ہر اول دستہ ظالم حکمراں کو کبھی بھی نا انصافی کی اجازت نہیں دے گا۔ بلکہ جائز اختیرات کے حدود میں رہ کر انہیں کام کرنے کی ترغیب دے گا۔ میرا خیال ہے کہ عدل و انصاف کا استحکام و قیام نیز جبر و تشدد کا مقابلہ کرنے کے لئے اسلام سے بہتر کبھی بھی کسی نظام حکومت کی تشکیل اس سر زمین پر نہیں ہوئی۔ اسلام نے عوام پر ذمہ داری ڈالی ہے کہ اگر حکمراں منصف نہ ہوں تو انہیں صحیح راستہ پر لگائیں۔ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے  
من رأى منكم منكرا فليغيره (صحیح مسلم)
یعنی تم میں کا کوئی شخص اگر برائی دیکھے تو اسے دور کرے۔ دوسری جگہ ارشاد فرماتے ہیں:
أَفْضَلُ الْجِهَادِ كَلِمَةُ عَدْلٍ عِنْدَ سُلْطَانٍ جَائِرٍ
"یعنی عدل انصاف کا ایک کلمہ (بات) جو ظالم بادشاہ کے سامنے کہا گیا ہو وہ جہاد سے بڑھ کر ہے۔(ابو داود و ترمذی)
بہر حال آخر میں ہم اپنے ترقی پسند اور آزاد خیال (progressive & Free Thinker) بھائیوں سے صرف ایک بات کہیں گے وہ یہ کہ آزادئ خیال کا صحیح راستہ اور ذریعہ مذہب بیزاری نہیں ہے بلکہ اس کا بہتر طریقہ یہ ہے کہ لوگوں کو ایسی مضطرب اور انقلاب انگیز روح سے آشنا کرایا جائے جو ظلم سے نفرت کرتی ہو اور ظالم کا مقابلہ کرسکتی ہو دراصل یہی جذبۂ ایمانی اور روح مسلمانی ہے جو بندۂ مؤمن کو مطلوب ہے۔
اے خدا سینۂ مسلم کو عطا ہو وہ گداز
تھا  کبھی  حمزہؓ  و  حیدرؓ  کا  جو  سرمایۂ  ناز
پھر فضا میں تیری تکبیر کی گونجے آواز
پھر تو اس قوم کو دے گرمی روح آغاز
نقش  اسلام  ابھر  آئے  جلی  ہوجائے
ہر مسلمان  حسینؓ   ابن  علیؓ  ہو جائے

(جوشؔ)
مکمل تحریر >>

کیا مذہب ہی تنہا وہ نقاب ہے جسے ظالم حکمراں استعمال کرتے رہے ہیں؟؟؟

اسلام اور آزاد خیالی حصہ ۶

یہ صحیح ہے کہ مذہب کے نام پر ایک عرصہ تک دنیا میں ظلم و ستم کی حکمرانی رہی اور یہ بھی سچ ہے کہ اب تک بعض ملکوں میں مذہب ہی کے نام پر ظلم وستم کا دور دورہ ہے۔ لیکن سوال اٹھتا ہے کہ کیا مذہب ہی تنہا وہ نقاب ہے جسے ظالم حکمراں استعمال کرتے رہے ہیں۔ کیا ہٹلر نے اسی مذہب کے نام پر حکومت کی تھی؟ یا اسٹالن جس کے بارے میں روسی صحافیوں اور دانشوروں کا متفقہ فیصلہ ہے کہ وہ بڑا سخت گیر،ظالم، مطلق العنان تھا، اس نے روس پر ایک پولیس کی طرح حکومت کی ہے اس نے اپنی حکومت و اقتدار کی خاطر مذہب ہی کا نعرہ بلند کیا تھا؟اور کرتہے ہیں، یہ تو وہ لوگ ہیں جو مذہب کے نام پر چراغ پا ہوجاتے ہیں اور مذہب کو برا بھلا کہتے ہیں۔ اس لئے اب یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہوگئی ہے کہ بیسویں صدی جس نے مذہب سے نجات پانے کے لئے کیا کیا نہ جتن کئے اور اس کے لئے کیا کیا قربانیاں نہ دیں، مگر اسے وحشیانہ مطلق العنانی کا وہ دور دیکھنا پڑا  جس میں مذہب سے زیادہ پر کشش اور مقدس نام کے سہارے بنی نوع انسان کو زبردست فریب دیا گیا۔
کوئی بھی شخص مطلق العنانی (Dictatorship) کی تعریف نہیں کرسکتا اور نہ ہی کوئی آزاد ذہن و دماغ اور بیدار قلب و ضمیر والا انسان اسے تسلیم ہی کرسکتا ہے۔ اسی طرح فطرت و طبیعت کی سلامت روی کا تقاضا تو یہ ہے کہ خواہشات نفسانی کی اتباع کئے بغیر حق خالص کا اقرار کرلیا جائے۔ لیکن اس کے برعکس دیکھنے میں یہ آیا کہ ہر خوبصورت اور محترم اصول (principle) کو غلط طور پر استعمال کیا گیا ہےا ور اپنے ذاتی اغراض و مفاد کو چھپانے کے لئے اسے بہترین پردہ بنایا گیا ہے۔ میرے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ انقلاب فرانس (French Revolution) کے نشہ کے دوران اسی آزاد خیالی (Liberalism) کے نام پر انتہائی بد ترین اور خبیث قسم کے جرائم کا ارتکاب کیا گیا۔ تو کیا اس کی روشنی میں ہم جذبۂ استقلال و حریت کو لغو قرار دے دیں؟ اور اسی طرح سینکڑوں بے قصور اور معصوم انسانوں کو دستور کے نام پر قید و بند کی صوعبتیں جھیلنا پڑیں،سزائیں دی گئیں، یہاں تک کہ رسم دار ورسن بھی پوری کی گئی، تو کیا اس وجہ سے ہم دستور کو ایک قلم منسوخ کردیں ، یا کچھ ملکوں میں مذہب کے نام پر اب بھی ظلم وستم کی حکمرانی ہے۔ کیا یہ مناسب بات کوگی کہ اس سے نجات پانے کے لئے ہم مذہب ہی سے محروم ہوجائیں؟ ہاں ہم ایسے مذہب کو ضرور دیس نکالا دیں گے اور اسے ممنوع قرار دیں گے جو اپنے نصاب تعلیم، نظریاتِ زندگی، نیز بذات خود ظلم و تشدد اور ناانصافی کی تبلیغ و اشاعت کرتا ہوگا۔ لیکن کیا یہ مثال اسلام پر بھی صادق آتی ہے؟ جو کہ عدل و انصاف کا اعلیٰ نمونہ ہے۔ اور خاص بات تو یہ ہے کہ اسلام کا عدل و مساوات صرف مسلمانوں ہی کے لئے مخصوص نہیں ہے بلکہ نازک سے نازک حالات میں بھی غیر مسلموں،دشمنوں،جنگی حملہ آوروں کے لئے بھی عام ہے۔
آئیے، ذرا سوچیں کہ آخر اس کا علاج کیا ہوسکتا ہے؟ تو حالات و مشاہدات سے واضح ہوتا ہے کہ ظلم و ستم،سرکشی و بغاوت سے نپٹنے کے لئے صرف ایک طریقہ ہے، وہ یہ کہ اہل ایمان کا ہر اول دستہ تیار کیا جائے جو اللہ وحدہ لا شریک لہ پر پختہ عقیدہ رکھتا ہو اور اس آزادی کا احترام کرتا ہو جس کی دعوت مذہب نے دی ہے اور جس آزادی کی حفاظت کی ذمہ داری خود مذہب کے اوپر ہے۔ یہ ایمانی ہر اول دستہ ظالم حکمراں کو کبھی بھی نا انصافی کی اجازت نہیں دے گا۔ بلکہ جائز اختیرات کے حدود میں رہ کر انہیں کام کرنے کی ترغیب دے گا۔ میرا خیال ہے کہ عدل و انصاف کا استحکام و قیام نیز جبر و تشدد کا مقابلہ کرنے کے لئے اسلام سے بہتر کبھی بھی کسی نظام حکومت کی تشکیل اس سر زمین پر نہیں ہوئی۔ اسلام نے عوام پر ذمہ داری ڈالی ہے کہ اگر حکمراں منصف نہ ہوں تو انہیں صحیح راستہ پر لگائیں۔ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے  
من رأى منكم منكرا فليغيره (صحیح مسلم)
یعنی تم میں کا کوئی شخص اگر برائی دیکھے تو اسے دور کرے۔ دوسری جگہ ارشاد فرماتے ہیں:
أَفْضَلُ الْجِهَادِ كَلِمَةُ عَدْلٍ عِنْدَ سُلْطَانٍ جَائِرٍ
"یعنی عدل انصاف کا ایک کلمہ (بات) جو ظالم بادشاہ کے سامنے کہا گیا ہو وہ جہاد سے بڑھ کر ہے۔(ابو داود و ترمذی)
بہر حال آخر میں ہم اپنے ترقی پسند اور آزاد خیال (progressive & Free Thinker) بھائیوں سے صرف ایک بات کہیں گے وہ یہ کہ آزادئ خیال کا صحیح راستہ اور ذریعہ مذہب بیزاری نہیں ہے بلکہ اس کا بہتر طریقہ یہ ہے کہ لوگوں کو ایسی مضطرب اور انقلاب انگیز روح سے آشنا کرایا جائے جو ظلم سے نفرت کرتی ہو اور ظالم کا مقابلہ کرسکتی ہو دراصل یہی جذبۂ ایمانی اور روح مسلمانی ہے جو بندۂ مؤمن کو مطلوب ہے۔
اے خدا سینۂ مسلم کو عطا ہو وہ گداز
تھا  کبھی  حمزہؓ  و  حیدرؓ  کا  جو  سرمایۂ  ناز
پھر فضا میں تیری تکبیر کی گونجے آواز
پھر تو اس قوم کو دے گرمی روح آغاز
نقش  اسلام  ابھر  آئے  جلی  ہوجائے
ہر مسلمان  حسینؓ   ابن  علیؓ  ہو جائے

(جوشؔ)
مکمل تحریر >>

پیر، 10 اگست، 2015

اسلام:مرد کی تربیت اور عورت کا پردہ

الحمد للہ اسلام نے دونوں کو پردہ کی تعلیم دی ہے، یہ دہریہ اور ملحدین اسلام سے بغض میں ایسی حرکتیں کرتے ہیں، دیکھو اسلامی تعلیماتَ
مردوں کے لیے احکام:-
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں
آیت:  قُلْ لِلْمُؤْمِنِينَ يَغُضُّوا مِنْ أَبْصَارِهِمْ وَيَحْفَظُوا فُرُوجَهُمْ ذَلِكَ أَزْكَى لَهُمْ (النور :۳۰)۔
ترجمہ: " آپ مسلمانوں مردوں سے کہہ دیجئے کہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں، اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں، یہ ان کے لئے زیادہ صفائی کی بات ہے۔"(النور :۳۰)۔
مزید احادیث میں نبی کریم ﷺ کے فرامیں ملاحظہ ہوں
احادیث: ۱۔ حضرت جریر رضی اللہ عنہ نے آپ ﷺ سے اتفاق نگاہ کے متعلق سوال کیا، تو فرمایا: "نگاہ پھیر لو"(مسند احمد،مسلم،ابو داود،ترمذی)۔
حدیث۲:۔آپ ﷺ نے حضرت علیؓ سے فرمایا: "اے علی! ایک نگاہ کے بعد دوسری نگاہ نہ ڈالو۔۔۔۔"(مسند احمد،ابو داود،ترمذی)۔
حدیث۳ :۔ حجۃ الوداع میں ایک عورت آپ ﷺ سے مسئلہ پوچھنے آئی تو حضرت فضلؓ اس کی طرف دیکھنے لگے، تو آپﷺ نے ان کی ٹھوڑی پکڑ کر چہرہ دوسری  طرف پھیر دیا ۔۔۔۔۔(بخاری)
عورتوں کے لئے احکام:-

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
آیت:  وَقُلْ لِلْمُؤْمِنَاتِ يَغْضُضْنَ مِنْ أَبْصَارِهِنَّ (النور :۳۱)۔
ترجمہ: اور مسلمان عورتوں سے کہہ دیجئے کہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں۔۔۔"(سورہ النور:۳۱)۔
حدیث: ایک مرتبہ حضرت ابن ام مکتومؓ تشریف لائے تو آپ ﷺ نے حضرت ام  سلمہؓ اور حضرت میمونہ رضی اللہ عنہما کو ان سے پردہ کا حکم دیا، اس پر حضرت ام سلمہؓ نے عرض کیا وہ تو نابینا ہیں، تو آپ ﷺ نے فرمایا:"کیا تم دونوں بھی نابینا ہو، تم انہیں نہیں دیکھ رہی ہو؟"(ابو داود،نسائی،ترمذی،ابن حبان)۔


الحمد للہ اسلام کامل اور مکمل دین ہے، اس پر عمل کر لیں گے عورت کی عزت کی حفاظت بھی ہوجائے گی اور مرد کی تربیت بھی۔ اور ماحول بالکل باحیا ہوجائے گا۔
مکمل تحریر >>