Pages

ہفتہ، 25 جولائی، 2015

صیام کے متعلق اشکالات و جوابات

صیام کے متعلق اشکالات و جوابات
اعتراض:-  ایذاء مسلم حرام ہے پھر روزہ کا حکم دے کر انسان کو پریشانی میں کیوں ڈالا؟
اشکال: آپ کا مذہب عجیب و غریب ہے کہ انسان کو پریشانی میں ڈال دیتا ہے اور پورے دن بھوک و پیاس کی حالت میں تڑپاتا ہے ایسا کیوں؟ حالاں کہ آپ کا یہ دعویٰ ہے کہ انسان جب اسلام قبول کر لیتا ہے تو اس کی پوری زندگی اطمینان و سکون کے ساتھ گذرتی ہے،نیز آپ یہ بھی کہتے ہیں کہ ایذاء مسلم حرام ہے لہٰذا آپ کی شریعت خود حکم دے رہی ہے ناقابل اعمال کا۔
جواب: فطرت کا یہ تقاضا ہے کہ اس کی عقل کو اس کے نفس پر غلبہ اور تسلط دائمی حاصل رہے مگر خواہشاتِ بشریت بسا اوقات اس کی عقل پر غالب آجاتی ہے۔لہٰذا تہذیب و تزکیہ نفس کے لئے اسلام نے روزہ کو ایک رکن قرار دیا کیوں کہ نفس کی ساری بدیوں کا سبب کھانے پینے اور جنسی خواہشات کا بھڑکنا ہے لہٰذا یہ روزہ سے کم ہوں گی تو نفس مغلوب اور عقل غالب ہوگی۔ بہرحال  معلوم ہوا کہ اس شریعت معتدلہ کے اندر انسان کو پیاسا تڑپانا نہیں ہے اور نہ ایذاء مسلم ہے بلکہ مفادِ انسان اور ہدایت انسان ہے کیوں کہ جو بھی حکم اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے نافذ ہوتا ہے تو انسا ن ہی کے فائدے کے لیے ہوتا ہے۔
اعتراض:-  روزہ کے لئے رمضان کی تخصیص کیوں؟
سوال : جب لوگ اپنی نفسانی خواہشات کو دبانے کے لئے روزے رکھتے ہیں تو یہ عمل پورے سال میں کبھی کبھی کرسکتے ہیں خواہ ماہِ شوال ہو یا ماہِ محرم ہو وغیرہ ذلک۔ تو پھر ماہِ رمضان ہی میں سب سے زیادہ یہ عمل کیوں کیا جاتا ہے؟
جواب: جناب یہ مہینہ برکت کا مہینہ ہے اور اس مہینے کو تمام مہینوں پر فضیلت حاصل ہے کیوں کہ اس مہینے کے اندر قرآن کا  نزول ہوا جو لوگوں کی ہدایت کے لیے ہے لہٰذا اس مہینے کی برکت اور فضیلت کو مدِ نظر رکھتے ہوئے روزہ رکھتے ہیں۔
اعتراض:-  دن میں ہی روزہ کیوں رات کو کیوں نہیں؟
سوال: آپ روزہ اس لئے رکھتے ہیں تاکہ خوزہشات نفسانی مغلوب اور عقل غالب ہو تو اس عمل کو آپ رات میں بھی کرسکتے ہیں یعنی رات کو بھی روزہ رکھ سکتے ہیں لہٰذا رات میں روزہ کیوں نہیں رکھتے ہیں حالانکہ رات کی عبادت اچھی ہوتی ہے اور ریا کاری نہیں ہوتی۔
جواب: جناب ہاں ہاں آپ کا اشکال صحیح ہے لیکن رات میں روزہ نہ رکھنے کی وجہ یہ ہے کہ رات کا وقت بالطبع ترک شہوات اور لذات کا ہے لہٰذا اگر رات کا وقت روزہ کے لیے قرار دیا جاتا تو لوگ خواب غفلت کے میدانوں میں ڈوب کر سوجاتے اور پھر دن کو کھانے پینے اور سیر و تفریح کے بعد خواہشاتِ نفسانیہ میں مصروف رہتے۔
اعتراض:-  صرف رمضان اور اس کا پورا مہینہ کیوں؟
سوال: اسی طرح آپ سال میں ایک ہی مہینہ کی تخصیص کیوں کرتے ہیں کہ ایک مہینہ  روزہ رکھتے ہیں اور ایک ماہ سے نہ کم کرتے اور نہ زیادہ آکر اس کی کیا وجہ ہے۔
جواب (۱): وجہ اس کی یہ ہے کہ روزہ کے قانون کو عام ہونا چاہئے اس لئے کہ اس میں سب کی اصلاح و تہذیب مقصود ہے لہٰذا ہر شخص اس بات کا مجاز نہ ہو کہ جس مہینے میں آسانی سمجھے روزہ رکھ لے اس لئے اس میں باب معذرت کے وسیع ہو جانے گا اور امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے انسداد کا اور اسلام کی ایک عظیم عبادت میں سستی ہونے کا اندیشہ ہے۔
جواب (۲): دوسرا جواب یہ بھی دیا جاسکتا ہے کہ مسلمانوں کے ایک بڑے گروہ کی ایک وقت میں کسی چیز کی پابندی کرنے سے ایک دوسرے کو اس کام میں مدد ملے گی اور آسانی ہوگی اور کام کرنے کی ہمت پیدا ہوگی۔
اعتراض:-بھول کر کھا پی لینے سے امساک کیسے ہوا؟
سوال: آپ کہتے ہیں کہ روزہ نام ہے امساک کا حالانکہ اگر کوئی حالتِ صوم میں بھول کر کھا پی لیا تو بھی روزہ ہو جائے گا اس سے معلوم ہوا کہ روزہ امساک کا نام نہیں ہے۔
جواب: اگر روزے دار بھول کر کسی ناقض صوم چیز کا استعمال کرے تو بھی امساک و ترک شرعی اس کے حق میں موجود ہے کیوں کہ شارع نے اس فعل کو اپنے طرف منسوب کیا ہے چنانچہ ارشاد ہے  ان الله تعالی اطعمه سقاہ  یعنی اللہ تعالیٰ نے اس کو کھلایا پلایا۔
اعتراض:-چھ مہینہ دن و رات والے روزہ کیسے رکھیں ان پر تو مشقت ہوجائے گی؟
سوال: آپ قطب جنوبی اور شمالی کے باشندگان کے سلسلے میں کیا فیصلہ کرتے ہیں کہ یہ لوگ روزہ رکھیں گے یا نہیں، نماز پڑھیں گے یا نہیں، کیوں کہ ان لوگوں کی رات چھ ماہ اور دن چھ ماہ کا ہوا کرتا ہے لہٰذا اگر یہ لوگ عبادات کریں گے تو بڑی بڑی مصیبتوں کا سامنا کرنا پڑے گا اور اگر عبادات نہ کریں گے تو کیا قرآن و حدیث خاص ہے اگر خاص ہے تو پھر آپ دین کی دعوت عامۃ الناس کو کیوں دیتے ہیں۔

جواب: شریعت مطہرہ نے ان باشندگاں سے صرف نظر نہیں کیا جو قطب شمالی یا قطب جنوبی میں قیام پذیر ہیں، نماز اور روزہ ان پر بھی اسی طرح فرض ہیں جس طرح خط استویٰ میں رہنے والے پر ہیں۔ ان باشندگاں کے لیے لازم ہے کہ ان مملکت سے اوقات کی تعین کریں ے جو قریب ہیں اور قریبی مملکت میں لیل و خمسہ کے درمیان جو وقفہ ہے اسی وقفہ کے اعتبار سے نمازیں ادا کریں گے اور جو وقفہ دو رمضان کے درمیان ہے وہی وقفہ ساعات کے اعتبار سے ان علاقوں میں بھی معتبر ہوگا۔ چنانچہ قطب جنوبی کے باشندگان یا شمال کے باشندگان چھ مہینے کے شب و روز کی بناء پر یہ تعامل نہیں کہ چھ مہینے بھر سوتے ہی رہتے ہیں اور چھ مہینے تک جاگتے ہی رہتے ہیں بلکہ انہوں نے بھی نظام اوقات اسی طرح متعین کئے ہیں جس طرح ہمارے یہاں چوبیس گھنٹے میں قائم ہیں لہٰذا  فمن شهد منكم الشهر  کا مخاطب وہ بھی ہوگئے جس طرح ہم ،اسی طرح  اوقاتِ صلاۃ کی تعین ان کے لئے بھی ہوگئی جس طرح ہمارے لئے ہے۔(واللہ اعلم بالصواب)

0 تبصرے:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔