Pages

ہفتہ، 25 اکتوبر، 2014

عیسائیت کے اعتراضات کے جوابات سے قبل یہ ضرور پڑہیں

اعتراضات کے جوابات ملاحظہ کرنے سے قبل بطور مقدمہ کے کچھ باتیں سمجھ لیں پس ہم عیسائیوں سے دریافت کرتے ہیں کہ مذکورہ سوالات (جو ان لوگوں نے قرآن کے حوالہ سے کئے ہیں) کے ضمن میں جو تمام فضائل مسیح علیہ السلام  کا ذکر موجود ہے وہ کہاں سے ثابت ہے؟ عیسائی یہی کہیں گے کہ قرآن کریم سے ثابت ہے لہذا یہ بات اظہر من الشمس ہو گئی کہ ان سب فضیلتوں کی نسبت آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی جانب ہے اور انہی کے واسطے سے مسیح  علیہ السلام  ابن مریم   کے یہ کمالات معلوم ہوئے ۔ پس یہ بات کالشمس علی نصف النہار ہوگئی کہ مسیح ابن مریم کے فضائل کا سبب تاجدار کونین احمد مجتبیٰ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں اور صرف حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے حق میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم محسن نہ قرار پائے بلکہ جملہ انبیاء  کرام علیہم السلام کے حق میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم محسن ٹھہرے اور ظاہر ہے کہ محسن اس سے افضل ہے جس پر احسان کیا جارہا ہے۔ پس گویا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسیح علیہ السلام پر افضلیت رکھتے ہیں۔ اسی طریقہ سے حضرت مسیح علیہ السلام کے کمالات و کرامات جو عیاں ہوئے ہیں وہ دراصل حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی برکت اور عظمت کی وجہ سے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کے ذریعہ باری تعالیٰ نے حضرت مسیح علیہ السلام کے کمالات و کرامات کا اظہار فرمایا اور یہ بات بھی محقق ہے کہ کسی کے کمالات و کرامات کا اظہار خود اس ظاہر کرنے والے کے کمال کی دلیل ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ قرآن کے ذریعہ حضرت مسیح علیہ السلام ابن مریم  پر ہزاروں کئے جانے والے اشکالات کے جوابات دے دئے چوں کے مخالفین کبھی تو مریمؓ پر غلط تہمت لگاتے تھے کہ عیسیٰ علیہ السلام کیسے اور کس طرح وجود میں آئے اسی طرح کے سوالات کئے جاتے تھے پس حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس قرآن کریم کے ذریعہ ان تمام شبہات اور اشکالات کے مسکت جوابات دے دئے۔

بہر حال قرآن کریم اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے کافی احسانات ہیں مگر افسوس صد افسوس ان مخالفین پر ہے کہ ان تمام احسانات کو بھلا دیا اور عیسیٰ علیہ السلام کو خدا کا درجہ دیکر محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کے لائے ہوئے احکامات کو ٹھکرا دیا۔
مکمل تحریر >>

جمعرات، 23 اکتوبر، 2014

منکرین حدیث اور صحیح بخاری

منکرین حدیث کے وسوسوں کا جواب
الف)جب تک بخاری نہیں تھی تم حدیث کو ماننے والے نماز کس طرح پڑھتے تھے؟
جواب: اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے صحابہ رضی اللہ عنہم نے سیکھا۔ اور ان میں سے بہت سے صحابہ حدیث لکھا بھی کرتے تھے حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ بھی حدیث لکھا کرتے تھے جس کی وضاحت صحیح بخاری میں ابو ھریرۃ رضی اللہ عنہ کی زبانی موجود ہے۔
اور حضرت ابو ھریرہ رضی اللہ عنہ کی تمام روایات کو ان کے شاگرد نے لکھ کر جمع کیا ہے۔
اور بھی تفصیل ہے جو اپ تدوین حدیث کے موضوع پر کتاب میں پڑھ سکتے ہیں۔
اور ان جاہلوں کو صرف بخاری پتا ہے حالنکہ امام بخاری سے پھلے بھی بہت سی حدیث کی کتابین وجود میں آگئی تھی اور فقھاء نے فقھی مسائل بھی احادیث سے مستنبط کر کے نکال دیے تھے۔
حدیث کی کتابوں میں مشہور امام مالکؒ کی مؤطا ہے اور امام ابو یوسف اور امام محمد کی کتاب الآثار ہے، اسی طرح امام شافعیؒ کی کتاب الام ہے، امام احمد کی مسند احمد ہے۔ اور بھی بہت سی کتابیں موجود ہیں۔
میرا سوال ان منکرینِ حدیث سے یہ ہے کت تم لوگ نماز کس طرح پڑھتے ہو۔
کتنی رکعت پڑھتے ہو۔؟
کتنی نمازیں پڑھتے ہو۔؟
فرض اور سنت کا کوئی تصور ہے کہ نہیں تمھارے پاس۔؟

ب)منکرین حدیث کا الزام کے ہم نے بخاری کو قرآن کا درجہ دیا ہے۔
حالانکہ ہمارے اصول کی کتابوں میں یہ بات واضح الفاظ میں لکھی ہوئی ہے
اصح كتب بعد كتاب الله البخاري
یعنی قرآن کریم کے بعد سب سے صحیح کتاب صحیح بخاری ہے۔
مکمل تحریر >>

ہفتہ، 4 اکتوبر، 2014

منکرینِ حدیث سے دس سوالات

منکرینِ حدیث سے دس سوالات


اسلام مکمل دین ہے۔ منکرینِ حدیث سے چند سوالات
قرآن مجید رہتی دنیا تک ہمیشہ کے لیے دین اسلام کے کامل ہونے کا اعلان فرمایا ہے، چنانچہ سورہ مائدہ میں ارشاد ہے
الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا
ترجمہ: آج میں نے تمہارے لیے تمھارے دین کو کامل کردیا اور میں نے تم پر اپنا انعام پورا کردیا، اور میں نے تمہارے  لیے اسلام کو بحیثیت دین کے پسند کرلیا، (سورہ المائدہ 5 آیت 3)
      اس آیت سے صاف ظاہر ہے کہ دین اسلام کامل دین ہے، ہم منکرینِ حدیث سے سوال کرتے ہیں کہ جب دین کامل ہے اور تمہارے نزدیک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا قول فعل حجت نہیں ہے( جسے حدیث کہتے ہیں) تو تم پورا دین قرآن سے ثابت کرو۔
1.قرآن مجید میں نماز کا حکم ہے، بتاؤ قرآن کی کون سی آیت میں نماز کی رکعتوں کی تعداد بتائی ہے، اور رکوع اور سجدہ میں پڑھنے کو کیا بتایا ہے، نماز میں نظر کہاں رہے، ہاتھ کہاں رہیں یہ سب قرآن سے ثابت کریں۔
2. اسی طرح قرآن مجید میں جگہ جگہ زکوٰۃ دینے کا ذکر ہے، زکوٰۃ کتنی فرض ہے؟ کس مال میں فرض ہے؟ کتنے کتنے دنوں یا مہینوں کے فصل سے دی جائے، درمیان میں جو مال آئے اس کی زکوٰۃ واجب ہے یا نہیں؟ یہ سب امور قرآن سے ثابت کریں۔
3.قرآن مجید میں ارشاد ہے کہ نماز کو کھڑے ہو تو ہاتھ پاؤں منہ دھو لو اور سر کا مسح کرو (سورہ المائدہ 5 آیت 6)۔ اس کو عوام و خواص سب وضو کہتے ہیں۔ اور احادیث شریفہ میں اس کا یہی نام وارد ہوا ہے۔ اس وضو کے توڑنے والی کیا چیزیں ہیں؟ اس کا جواب قرآن سے دیں۔
4. قرآن مجید میں حج و عمرہ کے پورا کرنے کا حکم ہے(سورہ بقرہ آیت  196)، حج کیسے ہوتا ہے؟ کیا کیا کام کرنے پڑتے ہیں؟ کن کن تاریخوں میں کیا عمل ہوتا ہے؟ اس کے کتنے فرائض ہیں؟ احرام کس طرح باندھا جاتا ہے؟ اس کے کیا لوازم ہیں؟کیا ممنوعات ہیں؟ یہ سب قرآن شریف سے ثابت کریں۔
5. عمرہ میں کیا کیا افعال ہیں؟ اور اس کا اتمام کس طرح ہوتا ہے؟ وہ بھی قرآن سے ثابت کریں۔
6. سورہ توبہ میں نمازِ جنازہ کا ذکر ہے(آیت 84) نمازِ جنازہ کس طرح پڑھی جائے؟ اس کا طریقہ ادا کیا ہے؟ یہ سب قرآن مجید سے ثابت کریں۔ نیز ساتھ ہی کفن دفن کا طریقہ بھی قرآن سے ثابت کریں اور یہ بھی بتائیں کہ میت کو غسل دیا جائے یا نہیں اور اگر دیا جائے تو کس طرح دیا جائے؟ ان سب امور کے بارے میں آیاتِ قرآنیہ میں کہاں کہاں ہدایات مذکور ہیں؟
7. نکاح انسانی زندگی کی اہم ضرورت ہے۔ انعقادِ نکاح کس طرح ہوتا ہے؟ یہ بھی قرآن سے ثابت کریں۔
8. قرآن مجید میں دیت(خون بہا) کا ذکر ہے(سورہ  النساء آیت 92) قرآن مجید سے ثابت کریں کہ ایک جان کی دیت کتنی ہے؟ اور مختلف اعضا کی دیت کتنی ہے؟ اور مرد و عورت کی دیت میں کچھ فرق ہے یا نہیں؟
9. سارق اور سارقہ(چور اور چورنی) کے ہاتھ کاٹنے کا قرآن مجید میں حکم ہے(سورہ المائدہ آیت 38)قرآن سے ثابت کریں کہ ہاتھ کہاں سے کاٹا جائے؟(یاد رہے کہ عربی میں ید انگلیوں سے لے کر  بغل تک پورے  ہاتھ پو بولا جاتا ہے) اور کتنا مال چرانے پر ہاتھ کاٹا جائے، کیا ایک چنا اور ایک لاکھ روپے چرانے کا ایک ہی حکم ہے؟ پھر اگر دوسری بار چوری کرلی تو کیا کیا جائے؟ ان سب امور کا جواب قرآن مجید سے دیں۔
10.قرآن مجید میں زانی اور زانیہ کو ماۃ جلد(سو ضرب) مارنے کا حکم دیا ہے(سورہ النور آیت 2)۔ یہ ضرب کس چیز سے ہو؟ متفرق ہو یا بیک وقت متواتر ہو؟ یہ سب قرآن سے ثابت کریں۔
      منکرینِ حدیث ان سوالات کے جوابات قرآن سے دیں اور یہ یقین ہے کہ وہ جوابات قرآن سے نہیں دے سکتے، لہذا یہ اقرار کریں کہ دین اسلام کو جو قرآن نے کامل بتایا یہ اسی طرح سے ہے۔ کہ قرآن کے ساتھ حدیث پر بھی عمل کیا جائے اور یہ بھی تسلیم کرلیں کہ قرآن مجید پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی تشریحات کے بگیر عمل نہیں ہوسکتا اور یہ بھی اقرار کریں کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال و افعال حجت ہیں۔
اور یہ بھی اقرار کریں کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال و ارشادات محفوظ ہیں۔ اگر وہ ہم تک نہ پہونچے ہوں تو  اب قرآن پر عمل ہونے کا کوئی راستہ نہیں رہتا اگر اس وقت قرآن پر عمل نہیں ہوسکتا تو قران دوامی کتاب نہ رہی(العیاذ باللہ)
      اور اگر حدیث کو حجت نہیں مانتے تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ صرف قرآن سے دین کیسے کامل ہوا؟ قرآن مجید کا اعلان ہے کہ دینِ اسلام کامل ہے اور بے شمار احکام ہیں جو قرآن میں نہیں۔ اور جو احکام قرآن میں مذکور ہیں وہ مجمل ہیں۔ بغیر تشریح اور تفسیر کے ان پر عمل نہیں ہوسکتا۔ اگر کوئی دشمن یہ سوال کرلے کہ قرآن کا فرمان ہے کہ دین اسلام کامل ہے لیکن اس میں تو نماز کی رکعتوں کا ذکر بھی نہیں ہے۔ اور حج کا طریقہ بھی نہیں بتایا وقوفِ عرفات کی تاریخ بھی نہیں بتائی۔ دیت کی مقدار بھی نہیں بتائی وغیرہ وغیرہ تو پھر کیسے کامل ہوا۔ اس سوال کا جواب ملحدو اور منکرو تمہارے پاس کیا ہے؟ کیا انکارِ حدیث کے گمراہانہ دعوے کی پچ میں دین اسلام کو ناقص مان لو گے؟


مکمل تحریر >>